تختی اور غربت

بچپن میں یہ کہہ کر تختی لکھائی گئی کے اس  پر لکھنے  سے آپ کے لکھنے کا انداز اچھا یا خوش خط ہوجائیگا ہم وہی ایک تختی سارا سال چلاتے رہے، اور  اس کو ”میٹ” لگا
کر صاف کرتے اور اگلے دن اسی پر لکھ کر باجی کو جاکے دکھاتے ۔ لیکن لکھائی میں کچھ خاص فرق نہیں پڑا،

 

جب شہر میں لوگوں سے ملاقات ہوئی اور ان کی لکھائی کا انداز اتنا خوبصورت دیکھا تو پوچھا آپ بھی تختی لکھتے تھے ؟

 

 تو جواب ملا نہیں ، پھر کیسے اتنی اچھی لکھائی ؟  تو اس نے کہا ہماری ٹیچر کاپی  پر خوشخطی لکھاتی تھیں۔

 

تو مجھے یاد آیا کہ جب  بچپن میں گھر پر کہتے کہ ہم نے تختی نہیں لکھنی کاپی لکھنی  ہے ۔

 

تو کہتے نہیں کاپی پر لکھائی اچھی نہیں ہو سکتی۔۔۔

 

آج اچانک نہ جانے کیسے یہ خیال آیا کہ مسلئہ شاید خوشخطی کا نہیں تھا بلکہ غربت اصل میں ایک مسلئہ تھی، گھر والوں کے پاس اتنی استعطاعت نہیں تھی کہ ہر مہینے ایک نئی کاپی خرید کے دیں
تو  اس کے مقابلے میں وہ تختی کو فوقیت دیتے ،  اور ہمٰیں یہ کہہ کر مطمعن کرتے کہ تختی پر لکھائی  کرنے  سے خوشخط ہو جایئگی،

 

مگر یہ حقیقت  نہ بتا پائے کہ ہم غریب ہیں اور تمہارے لئے  ہر مہینے ایک نئی کاپی نہیں خرید سکتے۔

 

 
اس مثال کو آپ اگر سامنے رکھ کے دیکھیں تو ہمیں بہت ساری ایسی چیزیں سکھائی گئی کہ یہ ایسا نہیں ویسا ہے اور ان میں سے بیشتر کے پیچھے اصل وجہ غربت تھی لیکن ہمیں کبھی ثقافت اور

 

کبھی کسی اور نام سے اس  سے دور رکھا گیا۔
 

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these

No Related Post