غلام ابنِ غلام، آقا ابنِ آقا

قیصر رونجھا 

نیویارک کے براڈ وے سٹریٹ میں میری اس  ایونٹ میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو افتحاہی گفتگو کے بعد یہ معلوم ہوا کہ محترمہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سپورٹر ہیں، ہماری گفتگو کا زیادہ تر حصہ امریکی الیکشن اور ان سے جڑی مستقبل کی توقعات تھیں۔ میرے لئے وہ  گفتگو نہایت ہی مفید رہی ،مجھےموقع ملا کہ میں امریکی نوجوانوں کے سیاسی نقطہ نظر کے بارے میں جان سکوں کہ وہ کیا سوچتے ہیں اور کس طرح سے اپنے مستقبل کے بارے میں سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے ممکنہ اثرات کے بارے میں فکر مند ہیں۔

آج جب اس سے ملاقات ہوئی تو وہ انہںوں نے “Support Hilaray”کا بیج لگایا ہو ا تھا،  میں نے مسکراہتے ہویے پوچھا یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ؟ اس نے قدرے امریکی انداز میں جواب دیا کہ  پچھلےہونے والے دونوں صدارتی مباحثے دیکھ چکی ہوں اور مجھے محسوس ہوا ڈونلڈ ٹرمپ اس قابل نہیں کہ وہ ہمارا صدر بن سکے، کیونکہ اس کی  جو سوچ ہے اور جو اس کا کردار ہے وہ آنے والی امریکی نسلوں کے لیے اچھا نہیں اور دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔

اسی لئے میں نے ارداہ بدل دیا ہے اب میں ہلیری کو سپورٹ کرتی ہوں، کم از کم وہ اسے اچھی ہے۔

 میں نے گزشتہ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے بتایا تھا کہ آپ کے گھر میں سب ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ کررہے  ہیں اور جو آپ کے دوستوں کا گروپ تھا وہ بھی تو اسی کے ووٹ کر نے جارہے تھے۔

اس نے کہا میرے والد اور ماں نے تو اپنا ارداہ بدل دیا ہے کہ وہ اس کو ووٹ نہیں کرینگے، البتہ میرا بھائی اور کچھ دوست ابھی بھی اس کو سپورٹ کر رہے ہیں، اور میرے خیال میں یہ ٹھیک ہے سب کی اپنی سوچ ہے سب کا اپنا فیصلہ۔

میں تھوڑا مسکرایا، تو اس نے وجہ پوچھی کہ کیوں مسکرا رہے ہو؟ 

 میں نے جواب دیا کہ مجھے اپنے ہاں کا سیاسی نظام یاد آرہا ہے،جہاں اگر دادا نے ایک جگہ ووٹ دیا تو آنے والی نسلیں بھی ادھر ہی  ووٹ دے رہی ہیں اور نسل در نسل غلامی اور آقا ابن آقا کا سلسلہ جاری ہے۔ اور کوئی یہ کہےکہ اس نے کسی اور کو ووٹ دینا تو اسے یہ تک کہا جاتا ہے کہ یہ تمہاری دادا کی روح کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔  بیٹے باپ کے حکم پر ووٹ دیتے ہیں کیونکہ باپ کو خطرہ ہوتا ہے کہ اگر ہمارے محلے سے محترم ہار گئے تو حکومت میں آنے کے بعد ہم  انتقامی کاروئیکا شکار ہوسکتے ہیں۔ بیوی شوہر کے حکم پر ووٹ دیتی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے اس کے حکم پر ووٹ نہ دینے سے شوہر کی نافرمانی ہوگی۔

وہ یہ سب سن کر حیرت میں  پوچھنے لگی کہ لوگوں کو سمجھانے والا کوئی نہیں ہ کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے، یہ تو ان کے مستقبل کا سوال ہے، یہ ان کے پالیسی بنانے والے لوگ  ہوتے ہیں، اور یہ ان کے ملک کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں ان کی آنے والی نسلوں کے بارے میں بڑھے بڑھے فیصلے یہ لوگ ایوانوں میں بیٹھ کر کرتے ہیں۔

میں نے جواب میں کہا ہمارے ہاں لوگ اتنا نہیں سوچتے، بلکہ شاید سوچتے ہی نہیں !  بس وہ یہ سوچتے ہیں، کہ بس صاھب جیتنے کے بعد ہمیں کوئی نوکری  دے دیں، اگر نوکری نہیں دے دیتے تو کم از ہمارے محلے کی گلی پکی کرادیں اور اگر وہ بھی نہیں کرتے تو کم از کم ساہیں ناراض نہ ہو بس۔ باقی قسمت کا لکھا سمجھ کر نسل در نسل ذہنی غلامی میں گزار رہے ہیں۔

وہ سن کے ہنسی اور بولی اب مجھے پتہ چلا کہ “تھرڈ ورلڈ” کیوں کہا جاتا ہے۔

میں نے کہا جی، ہم نا امید نہیں، کام جاری ہے۔

 

Facebook Comments

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these