….بندے ہیں ہم اس کے

 
دنیا میں کم ہی لوگ ملتے ہیں جو وہ اپنے قول اور فعل میں تفریق نہیں کرتے ، ان کومقصد ِذندگی اپنی ذندگی  سے زیادہ عزیر ہوتا ہے،   ایسے لوگ ہیرو کہلاتے ہیں جو اپنے وجود کو زندگی سے بھی ذیادہ بڑھے مقصد کے حوالے کر دتے ہیں۔

 

 

ہمارے ہاں بے شمار لوگ 20 سے 25 سال کی عمر میں مر جاتے ہیں مگر ان لوگوں کو 80 سے 85 سال کی عمر میں دفنایا جاتا ہے، ایسے لوگ زمیں پر سوائے بوجھ کے کوئی خاص ہنر دکھا نہیں پاتے ۔

 

لیکن کچھ  فولادی ارادوں کے مالک  لوگ  ہمت سے بھر پور  ہو کر جیتے ہیں، شاید ان کی زندگی  کے دن مختصر ہوتے ہیں ، لیکن وہ بزدل نہیں ہوتے وہ دشمن
کو للکارتے ہیں۔ وہ دشمن کو بار بار کہتے ہیں
   
بندے ہیں ہم اس کے ہم پر کس کا ہے زور ؟

 

پچھلی  15تاریخیں ہمیں بار بار  پیغام دیتیں ہیں کے بزدل کی طرح جینے سے بہادر کی طرح موت کو گلے لگانا افضل ہے ۔
 ستائیس
 دسمبر کی شام ہمیشہ یاد دلاتی ہے کہ چاہے راستے کتنے بھی کھٹن ہوں ،لیکن سچ کا ساتھ نہ چھوڑنا اور مظلوموں کا ہاتھ نہ چھوڑنا،  اور سچائی کے دشمن   
کو سر عام للکارنا، ان کی دھمکیوں سے نہ ڈھرنا، وہ  امن کے دشمن ہیں اور تم امن کے داعی ، تم محبت سے سرخرو ہونا اور بزدلوں کی طرح  ایک نہیتی لڑکی پر حملہ کرینگے۔

 

لیکن ہم بندے ہیں اس کے ہم پر کس کا زور ؟

 

 

پچھلے سال کاسور ج کوئٹہ کے لئے  کوئی اچھی خبریں  نہ چھوڑ سکا، ہمیں خودی کا درس دینے والا  خود اس  وقت رخصت ہوا جب وہ پہلے سے ہوئے خود کشدھماکے میں  ذخمی ہونے والی معصوم زخمی بچی کی مدد کے لئے اس کا ہاتھ تھامے آگے بڑھا   تو ایک اور دھماکہ اس کو اپنے ساتھ لے گیا، وہ  سبق دیتا رہا  کہ چاہئے تعداد میں کم ہو لیکن سچ کا ساتھ نہ چھوڑنا اس کا ہاتھ نہ چھوڑنا، پھر چار دن سڑک پر اس کی ٹھنڈی لاش یہ کہتی رہی ۔۔
بندے  ہیں ہم اس کے ہم پر کس کا  زور ؟
اعتزاز  جاتے ہوئے موت کو اعزاز بخشتا گیا ، خود کش حملہ وار کو گلے لگایا  اور بے شمار مائوں کو رونے سے بچایا اور  سبق دے گیا کہ  جنگیں صرف اصلحے اور لشکر کے بل بوتے پر نہیں جیتی جاتیں، بلکہ حوصلہ اگر بلند ہو اور ارادے ہوں فولادی تو قسمت اپنے ہاتھوں لکھی جاتی ہے۔

 

اس نے خود کش حملہ آوار کو گلے لگایا تو یہ آواز کہیں سے بلند ہوئی۔۔
بندے ہیں ہم اس کے ،ہم پر کس کا زور۔۔؟
 
اور کل 9 جنوری کو ایک اور بہادر دشمنوں کو للکارتا شہروں کی طرح لڑتے للکارتے اس دنیا سے جدا ہوگیا ، کہتا تھا  بلٹ پروف جیکٹ میر ی ذندگی تو  بچائیگی لیکن وہ میری ادا نہیں، کھلے عام  دشمنوں کوکہتا تھا کہ شاید تم سمجھو مجھے ڈرا وگے تو میں ڈر جائونگا،
لیکن وہ تو اپنی نسلوں تک کو وصیت کرتا گیا کہ شیر کی طرح جینا اور شیر کی طرح ہی مرنا مگر بزدل کے سامنے کبھی  نہ جھکنا۔

 

جب  بزدل دشمن نے پیچھے سے وار کیا تو یقینا” لیاری ایکسپریس  پر عیسی نگری قبرستان  کی فضائوں میں  یہ صدا  ضرور گونجھی ہوگی۔۔۔۔

 

 بندے ہیں ہم اس کے ، ہم پر کس کا زور۔۔۔۔۔

 

                                                                                                                                          آور آج میں نے دیکھا کہ ۔۔
                                                                                                                             کہ آسمان کی چھت پر ہے اپنی دنیا۔۔۔۔۔
 
 
Facebook Comments

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these

No Related Post