!اے چائنہ کے جہاز، ہمارے غم بھی لے جا

میں کافی دنوں سے سوچ رہا ہوں، کہ کوئی تحریر ایسی لکھو ں جو رومانوئی ہو، رومینٹک ہو ،  جس میں محبت کا ذکر ہو، حُسن کا ذکر ہو،  رقص کا ذکر ہو۔ ساجن کو دیکھنے بلکہ بغیر آنکھیں جھپکے غور سے ،دیر تک دیکھنے کا ذکر ہو۔ انگڑایوں اور آہوں کا  ذکر ہو ، مگر آئے روز کے حالات مجھے یہ لکھنے کا موقع نہیں دیتے،   ہردن کوئی نیا دھماکہ ، کوئی نئی واردات ۔

میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ لوگ مجھ سے بات کرنا چھوڑ دیں  یا میری سوشل میڈیا فیڈز سے اس لئے ہٹ جاہیں کہ میں آئے روز کوئی نہ کوئی غمگین خبر ہی شیئر کرتا رہتا ہوں، اس لئے شائد  دھماکوں کے درمیانی وقفوں میں تھوڑی بہت شاعر ی، تھوڑی بہت ہنسی مزاق کی باتیں اور بہت ساری پر امید، موٹیوشنل باتیں اپنے دوستوں کے ساتھ شئئر کرتا رہتا ہوں کہ امید  کا دیا جلتا رہے، چونکہ تمام دیوں کے بند ہونے کے باوجود بھی اگر امید کا دیا روشن ہے تو سب روشن ہے۔

میں غمزدہ تحریریں جان بوجھ کر تو نہیں لِکھتا، نا وس ہوں، بے بس ہوں،  سر نہیں پھوڑ نہیں سکتا، گالیاں نہیں دے سکتا،  میں امن پسند ہوں، قانون کو ماننے والوں میں سے ہوں ، لوگوں کو امن کا درس دیتا ہوں اس لئے کوئی  غیر قانونی ،  امن کے منفی حرکت بھی نہیں کر سکتا،  مگر کیا کروں، کس کو درد سنائوں ؟

مجھےعلم ہے، آپ بھی کچھ نہیں کر سکتے بلکہ کوئی کچھ نہیں کر سکتا،  کبھی کبھار تو ایمان  بھی ڈگمگا جاتا ہے کہ شاید کرنے والا بھی بے بس ہے،

بقول ِ  شاعر

دل کا اچھا ھے , مگر وقت کے ھاتھوں مجبور

ھم غریبوں کا خدا بھی ھے ، ھمارے جیسا

ہر حادثے کے بعد دعا کے لئےہاتھ اٹھا تا ہوں، لیکن دعا ابھی  اس کے در  کے رستےمیں ہی ہوتی  ے اور میرے در پر ایک نیا درد رقص شروع کر دیتا ہے۔

بزدلوں کی طرح موردِ الزام اتنوں کو ٹھہرا چکے ہیں کہ اب ہر دہشت گردی کے بعد یہ ڈر لگنے لگتا ہے کہ اگر ان کا نام نہ لیا تو ایسا نہ ہو وہ خدا نخواسطہ ناراض ہی ہو جاہیں  اور یہ کہہ کے محفل سے اٹھ جاہیں کہ آپ نے سب کے سامنے ہمارا نام کیوں نہیں لیا یہ ہماری توہین، ہم سے برداشت نہیں ہوتی۔

کل جب شانورانی میں ہلاک ہونے کی تدفین اور زخمیوں کا علاج جاری تھا ،  اس وقت گوادر میں چائنہ پاکستان اکانمک کاریڈور کے پہلے تجارتی  قافلے کی روانگی کے لئے مُلکی قیادت گوادر میں موجود تھی اور پہلے بہری جہاز کو سامان کےساتھ ہاتھ لہرا لہرا کر   خدا حافظ کہ رہی تھی،  محفل پر کشش تھی رقص تھا، موسیقی تھی، میں  چونکہ ترقی پسند ہوں آرٹ کا بھی شیدائی ہوں سو مجھے یہ دونوں کام بُرے نہیں لگے چونکہ لوگ تو مرتے رہتے ہیں، چالیس ، پچاس مریں کوئی بڑا نقصان تھوڑی ہو ا ہے اور ویسے بھی کسی کے مرنے سے ملک تھوڑی رک جاتے ہیں،  لیکن شاید میرے لیے وہ زیادہ خوش ہونے کا وقت نہیں تھا کیونکہ یہ کیسےممکن ہے، کہ آپ کے گھر میں جنازے پڑے ہوں اور آپ اپنے ہی گھر کے دوسرے کمرے میں رقص کریں۔

لیکن جب اتنی پُر تپاق تقریب دیکھی اور سب کو اس بڑھے بحری جہاز کو ہاتھ لہراتے الوداہ کرتے بھی دیکھا، تو پھر یہ خیال آیا کیوں نہ بلوچستان کے غم، زخم، خوف، دکھ ،محرومیاں، زیادتیاں سب اسی اہتمام کے ساتھ قافلے کی صورت میں چاغی سے لیکر لسبیلہ تک،پنجگور سے لیکر چمن تک ،نصیر آباد سے لیکر مکران تک چن چن کر سخت سیکورٹی میں کنٹینڑز میں ڈال کر براستہ بہری جہاز کسی دور سمندر میں غرق کردئے جاہیں اور ہمیں روز ،روز  کے رونے دھونے سے چھٹکارہ دلایا جائے ، اگر آپ سوچتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں تو آپ کو ہماری قابلیت پر شک  ہے اگر ہوشاب سے خوشاب  تک سامان کو لاکر گوادر سے صحیح سلامت بھیج سکتے ہیں تو بلوچستان جس کی تھوڑی سی آبادی ہے، تھوڑے بہت غریب سے ادمر ے لوگ ہیں، ان کو غموں سے آزاد کرانے میں آپ کو کتنی دیر لگ سکتی ہے۔

جب ایک دفعہ آپ ان کنٹینرز میں ہمارے سارے غم ٹھونس کر گوادر کے پورٹ سے روانہ کردینگے تو رقص کرنے کے لئے گانے کے لئے آپ کو جہازبھر  بھر کے اسلام آباد سے لوگوں کو لانا نہیں پڑے گا اور نہیں اس منظر کو دیکھنے کے لئے سرکاری لوگوں کو لانا  پڑے گا۔

بس اتنی سی گزارش ہے،

ہم کو دکھ، خوف و محرومیوں سے آزاد کر جا

اے چائنہ کے جہاز، ہمارے غم بھی لے جا     !

Facebook Comments

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these