کمال اُجلت میں ہیں قتل گاہیں۔

 

جہاز نے ابھی نیویارک کی زمین کو چھوا ہی تھا اور میرے موبائل میں سگنلز نے صرف سر ہی ظاہر کیا تھا کہ دھڑا دھڑ میسجیز نے پہنچنا شروع کردیا، پہلا پاکستان سے ایک دوست کا تھا جس میں لکھا “So Depressed over the murder of Qandeel’’ میں چونکہ گزشتہ پانچ گھنٹے سے جہاز میں سویا ہی تھا تو مجھے فوری طور پر سمج نہ آیا کہ کیا معاملہ ہے، میں جلدی ہی جواب میں لکھا کہ کیا ہوا ہے۔؟

جب تک جواب آتا تب تک میری فیس بک وال مجھے ساری داستان بتا چکی تھی، کہ کسی کی غیرت کی انہتا وہاں تک پنچی ہے کہ وہ بے غیرت ہوگیا۔

میں تب سے لیکر اب تک ایک عجیب کیفیت ہے مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں کیا لکھوں ؟ میرے دوست جو اس ملک میں تبدیلی کی بات کرتے رہے وہ بھی مایوس نظر آتے ہیں کیونکہ ہم بحیثیتِ قوم کہنا تو مناسب نہیں لیکن لوگوں کا ایسا گروہ جو ایک زمین کے ٹکڑے پر رہتا ہے سرحدوں کے اندر جس نے ان سرحدوں کے اندر مزید اتنی سرحدیں بنادی ہیں کہ اب پریشیانی اور کنفیوژن اس درجہ بڑھ گئی ہے کہ معلوم نہیں پار ہا کہ ہم نے انے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے سرحدیں بنائیں ہیں یا دوسروں کا اپنے سے آپ بچانے کے لئے۔

وہ جن کو پڑھا لکھا سمجھا جاتا رہا ہے وہ بھی قتل جیسے اقدام کو صھیح ثابت کر نے کے در پر لگے ہوئے ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں،  کچھ لوگ خوشی کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں ، کچھ لوگ ایدھی جیسے انسان دوست کی تصویر لگاکر بھی شاباش شاباش کے نعرے لگار ہے ہیں۔  غرض جتنے اکائونٹ اتنی باتیں۔

اور کچھ دیکھا نہ دیکھا لیکن ایک بات زندگی میں دیکھ چکا ہوں کہ غیرت ہمیشہ مڈل کلاس طبقے کے ساتھ ہی بِلٹ ان کر دی گئی ہے کبھی انتہائی غریب طبقے میں اس کو نہیں دیکھا اور نہیں سالی کبھی مجھے اس امیر طبقے میں نظر آئی میری نظر میں سب سے زیادہ کنفوژ طبقہ بھی یہ مڈل کلاسیے ہیں۔

میں اپنے دوستوں کی طرح ابھی تک ایک بہتر کل سے مایوس نہیں ہوا،میں جب بھی ایسا صورتحال دیکھتا ہوں تو یہ ذمہ داری محسوس ہوتی ہے کہ ابھی ذیادہ کام کرنا ہے لوگوں کو پڑھانا ہے سمجھانا ہے کہ خدارا خدا بننے کی کوشش مت کریں اور اپنے فیصلے کرنا جانتا ہے۔

کچھ دوستوں کی پوسٹس پڑھ کر معلوم ہوا کہ انہوں نے ایسے لوگوں کو اپنی پروفائل سے رمو کردیا جو اس قتل پر خوشیاں منا رہے تھے اور اس کو صھیح ثابت کرنے میں مصروفِ عمل تھے،میں ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے یہ سیکھا ہے اور یہ ہی سکھاتا رہا ہوں کہ “وہ لوگ جو اندھیرے میں ہے وہ روشنی والوں کی زمہ پر ہیں”۔ اگرہم بھی ایسا کرنا شروع کردینگے رائے فرار اختیار کرینگے تو اس نسل کو آنے والی نسلوں کو ہم کن  لوگوں کے حوالے کردیں ؟

آپ اور میں شاید ملک چھوڑ کر کسی اور جگہ چلیں جایئں لیکن ان کا کیا جو ہم سے توقعات لگا بیٹھے ہیں ؟ ان معصوموں کا کیا ہوگا جنہوں نے ابھی بڑھا ہونا ہے زندگی جینی ہے۔

مجھے پورا یقین بہت سے لوگ بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں تبصرہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ نہیں کر پاتے کیونکہ سماجی طور پر لوگو ں کے رویوں سے ان کو ڈر لگتا ہے، چونکہ وہ خود بھی غیر یقینی کیفت کا شکار ہیں کہ آیا جو ہوا وہ غلط ہے یا صھیح ہے اور اس ڈر سے کو لوگ ان کو برا نہ سمجھیں اپنی رائے کو دبائے رکھتے ہیں۔

ہم  نے ان لوگوں سے اپنے آپ کو دور نہیں کرنا جو ہم سے مختلف ہیں، اس قول سے اختلاف کرتے ہوئے کہ  “آپ  پوری دنیا میں کانٹوں سے بچنے کے لئے قالین نہیں بچھا سکتے لیکن اپنے پاوٗں میں جوتے تو پہن سکتے ہیں “ ہمارہ مسلہ یہ ہے ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں اس میں اگر آپ قالین نہیں بچھائیں گے اور صرف اپنے پائوں میں چپل ڈالینگے تو وہ لوگ جو بغیر چپل کے ہیں جن کے پائوں میں کانٹے لگے ہوئے ہیں وہ ان کانٹوں سمیت آپ کو روندھ ڈالینگے۔

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these