میں ایسی محبت کرتا تھا

قیصر رونجھا
وہ اپنی چائے کا مگ ختم کر چکے تھے اور میں ابھی تک مگ کو فتح کرنے کے آدھے مرحلے میں تھا، اسفتحیابی میں رکاوٹ گرمائش تھی  ان کی باتوں کی اور میری چائے کی۔
میرے اس چھوٹے  اپارٹمنٹ میں  آج سے پہلے شاید ہی اس قسم کی خاموشی اور حیرانگی ایک ساتھ واقع ہوئی ہوں، ان کے چہر ے کے تاثرات پڑھنا ایک کٹھن کام تھا۔
انہوں نے سگریٹ سلگانے کی اجازت چائی جو عام حالات میں شایدہی دی جاتی ،لیکن مییں سگریٹ سے انتہائی نفرت کے باوجود منع نہیں کر سکا، انہوں لائٹر کی مدد سے سگریٹ جلائی  اور لائٹر کو ٹیبل پر رکھتے ہوئے اسی ہاتھ سے اپنے چشمے کو ناک کی اصل پوزیشن پر لے آئے۔
اور بولے قیصر میاں تم پوچھ رہے تھے  ،میں کیسی محبت کرتا تھا۔
میں نے مگ کو ہونٹو ں سے لگائے ہوئے ہی جواب دیا ، جی جی۔۔۔
بولے کبھی کسی گائوں میں جانے کا  اتفاق ہوا؟
میں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا ۔
سر میں تو رہتا ہی گائوں میں ہوں۔
انہوں نے چہرے پر بغیر کسی تاثر کو ظاہر کئے بولے، گائوں میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کے تعلقات بڑھے لوگوں سے بنیں رہیں، اتنے خاص تعلقات  تونہ ہوں لیکن اتنے ضرور ہوں کہ جب لوگوں کے درمیان اس غریب کو دیکھیں تو پہچان سکیں یا اگر کبھی صاحب کو کسی کام کی ضرور ت پڑے تو بھی اسے ہی یاد کیا جائے، بس تعلق کی نسبت کا ہونا  میری محبت تھی۔
میں نے مگ رکھتے ہوئے پوچھا ، سر تھوڑا مزید تشریع فرماہیں سمجھ  نہیں آئی بات۔
“میں نسبت کا تعلق رکھنے کو محبت سمجھتا تھا، کہ لوگ جب دیکھیں مجھے تو کہیں یہ صاحب کا آدمی ہے، یا میں کئی جائوں تو لوگ مجھے اس لئے بھی جانیں کہ بڑھے صاحب مجھے جانتے ہیں، اب ایسا  ہے کہ جب جب بھی صاحب میرے گھر آئے میں نے غربت  میں رہتے ہوئے ہر ممکن خدمت کی، اور میری ہر کوشش ہر حرکت صاحب کا دل لباتی رہی ، پسند آتی رہی، وقت کے ساتھ ساتھ صاحب کے ساتھ تعلق کو مظبوط کرنے کے لئے میں نے اپنے اندر تبدیلیاں لائیں اور یہ تعلق مظبوط ہوتا رہا۔
انہوں سگریٹ کی آخری ٹوٹی کوایش ٹرے کی غیر موجودگی کی وجہ سے ٹشو پیپر پر مروڑا اور تو ہلکی سی چنگاری اٹھی جو فوراََ بند ہوگئی۔
میں نے پوچھا تو پھر کیا ہوا آگے ؟
کہنے لگے اب صاحب کہتے ہیں  “میں نے تمہارے ساتھ ہی رہنا ہے تمہارے ساتھ دل لگ گیا ہے”
میں نے حیرانگی میں کہا یہ تو اچھی بات ہے، یہ ہی تو آپ چاہتے تھے۔
کہنے لگے نہیں جناب نہیں، میں تو چاہتا تھا نسبت کا تعلق بنا رہے، میں کیسے ایک گائوں کا  آدمی صاحب کو جو بڑھے شہر سے ہیں، جن کا بڑھے لوگوں  ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے، ا نکی مہمان نوازی میں کیسے کر سکوں گا۔  میرا دل تو زندگی بھر کا مہمان بنانے کو تیا ر ہے ۔لیکن حقیقتوں کی زمین پر دل کی خواہشات کے قانون لاگو نہیں ہوتے۔
۔۔۔۔۔خاموشی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔خاموشی۔۔۔۔۔
میں نے دونوں مگ اٹھائے اور کچن کی طرف کی چلا گیا۔
یہ سوچتے ہوئے کہ کہانیاں جب آگے بڑھتی ہیں تو محبتیں کم ہونے لگتی ہیں۔

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these