جب جنگ ہوگی۔

 

جنگی جنون میں مبتلا لوگوں کے اسٹیٹس دیکھے تو سوچا کہ کیوں نہ ایک تحریر لکھی جائے یا لکھنے کی کوشش کی جائے کے لوگوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ جب جنگ ہوتی ہے تو کیا ہوتا ہے؟
بڑھی کوشش کی اور اپنے سب پرانے تجربے استعمال کرتے ہوئے لکھنے کی بھر پور کوشش کی ,کہ کوئی ایسی تصوراتی تحریر لکھنے کی کوشش کروں کہ لوگ محصوس یا تصور کرسکیں کہ خدا نخواسطہ جنگ چھڑ جائے تو انسانوں پر کیا بیت تی ہے، اور کس طرح بے رحم طوفانوں کی طرف جنگیں سب کچھ ختم کردیتئ ہیں۔

پہلے سوچا کہ کہ جنگئ جہازوں کی بے رحم آوازوں کے بارے میں لکھوں کہ جب یہ دہشت سے بھر پور آوازیں ان معصوم بچوں کے کانوں کو چیرنے لگیں گئ، جن کی ہنستی مسکراتی پیاری تصویریں عمومآٓ اپنی فیس بک پروفائل پر رکھتے ہیں، تو ان پر کیا بیتے گی ؟ جب یہ بچے ہر گزرتے ہوئے جہاز کی آواز کی دہشت کے ساتھ ان کے ساتھ چپٹ کر چیکھنے لگیں گے۔ ہانپتے کانپتے تھر تھراہینگے تو کیا کریں گے آپ۔

اور چونکہ جنگ شروع ہوگئی ہے تو حکومت کی طرف سے یہ علان بھی ہوا ہوگا کہ شہری آباد ی چونکہ زیادہ ٹارگٹ پر ہوتی ہے تو برائے مہربانی اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نکل چلیں اور کسی دورفتا علاقوں کی طرف ہجرت کریں۔ جب تک جب تک حالات ٹھیک نہ ہوں،

لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا کہ اتنے بڑھے خاندان کے ساتھ کیسے ہجرت کی جایئے جس میں بچے بھی ہیں، بزرگ بھی ہیں، حاملہ خواتین بھی ہیں۔؟ اور آپ رستے میں ہیں پیدل جار ہیں چونکہ اب جنگ کا ماحول ہے ہر طرف افراتفریح ہے پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے، ہائی ویز موٹرویز بند ہیں تو یہ سب کیسے ممکن ہوگا ؟ اور آپ کی اگر اپنی گاڑی ہے تو اس کے لئے تیل نہیں، اور آپ اپنے ہی ملک میں اجنبی بن گئے۔۔۔۔۔۔

توبہ توبہ اتنی بری صورتحال میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تو اس لیے لکھ نہیں پایا۔

پھر یہ خیال آیا کہ تھوڑی سے کوشش کرکے اس کو آسان بناتا ہوں، اور معاضی قریب میں ہونے والی مثالوں کے ذریعے لوگوں کو جنگ کے نتیجے میں ہونے والے خطرناک نقصاناتا ت کے باریں میں بتایا جائے۔ جیسے شام کے شہر میں اپولو میں ہونے والا حملہ جس میں نھنا عمران دھنقیش جو اپنے معصوم مٹی آلود، خون سے لت پت چہرے کے ساتھ حواس باختہ ایمبولینس میں رکھا جاتا ہے، اگر اس معصوم عمران کی جگہ آپ کا جو بچہ پچھلے پیراگراف میں آپ کے ساتھ ہجرت کر رہا تھا اور راستے میں اس پر حملہ ہوتا ہے تو کیسا محصوس ہوگا ؟

لیکن افسوس کہ اتنی کوشش کے بعد میں سب کچھ نہیں لکھ پا یا ۔۔۔۔

مگر یہاں سوشل میڈیا اور نیشنل میڈیا پر بیٹھے شیر یہ سمجھتے ہیں کہ جب جنگ ہوگی تو اپنا موبائل فون لیکر گرتے ہوئے بمبوں کے ساتھ، لاشوں کے ساتھ، سسکتی خواتین کے سیلفی نکال کر سوشل میڈیا پر اپڈیٹ کر رہے ہونگے، کہ ہیش ٹیگ لگا لگا کے اور لکھتے ہونگے . یا مقامی میڈیا کی جہانباز نمائندگان اڑھتے ہوئے جہازوں اور گرتے ہوئے بمبوں اور ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہوئے توئے کہینگے ناظرین ہم سب سے پہلے آپ کو بتا رہیں کہ یہاں اتنے بم گریں اور اس نتیجے میں اتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں، سب سے پہلے سب سے آگے ہم۔

ایک کمرشل بریک اور اس کے بعد مزید ہلاکتوں کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں۔

یہ سب لکھنے کی کوشش کی مگر یہ لکھ نہیں پایا، اور کاش یہ لکھ بھی نا پائوں مگر جب اپنے دوستوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ لائکس کے چکر میں، اور کچھ لوگوں کو ہنسانے کے چکر میں جنگ کو خوش آمدید کہنے والے الفاظ اور اسٹئٹس اپلوڈ کرتے ہیں یا بیانات دیتے ہیں تو کیا وہ ذرا تھوڑی بھی دیر کے لئے اپنے ارد گرد موجود لوگوں کے بارے میں سوچتے ہیں ؟

میں تو نہیں لکھ پایا،نا اہل ہوں، آپ اگر ایسا لکھ پائے تو ضرور شیر کجیئگا۔

Facebook Comments

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these