مجھے قومی ترانہ نہیں آتا ہے۔۔۔

مجھے قومی ترانہ نہیں آتا ہے۔۔۔۔ !

قیصر رونجھا

لوگوں کو نیچا دکھانے، کمتر ، نا اہل ثابت کرنے کی ریت ہمارے گلی محلوں سے نکل کر میڈیا جیسے نیشنل پلیٹ فارمز تک آپہنچی ہے جدھر کبھی احتجاج کرتے ہوئے سندھ کے غریب اساتذہ سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ ABC سناؤ یا پھر صوبائی اور قومی اسمبلی کے نمائندوں سے قرار دادِپاکستان کے بارے میں تو کبھی قومی ترانے کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔

مقصد دیکھنے والے کے سامنے واضع ہوتا ہے کہ اس صاف صاف مقصد سوائے تذلیل اور نیچا دکھانے کے کچھ نہیں۔۔اگر ایک لمحے کو اس سین کو بدلا جائے جو میڈیا کے نمائندے سوال اسمبلی کے نمائندوں سے یا میرا جیسی ایکٹریسس کی ٹوٹی پھوٹی انگلش بولنے والوں سے کرتے ہیں  اور وہ  حضرات جو میری طرح اپنے کمپیوٹر سکرینز کے سامنے بیٹھے یا موبائلز ہاتھ میں لئے اس طرح کی ویڈیوز شئر کرتے اور ہیں اور کمینٹ سیکشن میں گالیوں اور بے عزتی سے بھرے الفاظ  کیبورڈ اور کی پیڈ نامی ہتھیاروں سے تھوپتے رہتے ہیں ان ہی سے یہ سوال دورائے جائیں تو کتنے لوگ مطمئن کرنے والے جواب دے سکینگے؟

یہ صورتحال ایسی ہی کہ ایک صاحب سے ان کے دوست نے بھری  محفل میں پوچھا کہ قومی ترانہ آتا ہے صاحب نے کوشش کی لیکن سنا نہ سکے تو محفل میں موجود سب دوستوں نے مزاق اڑایا کہ یار کمال بات ہے قومی ترانہ تک نہیں آتا۔۔۔

صاحب شرمندگی اور احساس کمتری میں اندر ہی اندر جلتے جلتے گھر پہنچے، دروازہ کھولتے بیگم پر نظر پڑی۔

قومی ترانہ آتا ہے ؟  شوہر نے غضب دار آواز میں پوچھا ۔

بیوی ابھی اس حیرانگی میں تھی کہ سلام کرنے بجائے میاں اتنی غضب دار آواز قومی ترانہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟۔۔۔۔ کہ اسی دوران میاں کے اندر کا غصہ صبر سے باغی ہوگیا اور اپنی سرحدیں پھلانگتا ہوا سامنے پڑے شیشے کے گلاس کو زوردار آواز کے ساتھ توڑ گیا۔

بیوی نے جب دیکھا کہ اسی کے سامنے اسی کے برتن کو توڑا گیا تو وہ روتے منہ بناتے ہوئے تھوڑے سے غصے، تھوڑے سے حیرانگی اور غم ملے احساسات کے ساتھ دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوگیئں اور سامنے اس کی نظربیٹی پر پڑی ، جو اپنی نیل پالش ہاتھ میں لئے ماں کو اپنے ناخن دکھانے آگے بڑھیں اس کی نظر جب ماں کے چہرےپر پڑی تو، اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی ماں نے غصے بھری، لال آنکھوں سے پوچھا،

قومی ترانہ آتا ہے؟

 بچی کو جواب کی محلت دئے بغیر، اندر کی جلتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش اور ٹوٹے ہوئے گلاس کے صدمے میں ماں نے بیٹی کی نیل پلاش سامنے دیوار پر دے ماری۔۔۔

سب سے چھوٹا بچہ جو یہ سب دیکھ رہا تھا اور اس بات کا گمان ہوگیا تھا کہ اب اگلی باری میری آنی ہے فورا سے ٹیبل پر چڑ دوڑا اور زور زور سے بولنے لگا۔۔۔

مجھے قومی ترانہ آتا ہے، مجھے قومی ترانہ آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔(لیکن مطلب نہیں پوچھنا، اس نے دل ہی دل میں بولا)

اب یہ معاملہ ہمارے باقی مسائل کی طرح ایک قومی مسلہ بن گیا ہے کہ کس کو کیا آتا ہے یا کیا نہیں آتا۔ کیا جب یہ سوال کیا جاتا ہے تو اس کا واقعی مقصد سامنے والے کی معلومعات جاننا ہوتا ہیے یا صرف نیچا دکھانے اور نااہل ثابت کرنا۔ اس پر ہنسنے کی بجائے کیایہ سوچنے کی ضرورت تو نہیں کہ ہم نے اپنی تاریخ کے اندر جھوٹ کی اس قدر ملاوٹ کردی ہے کہ بار بار رٹا لگانا پڑتا ہے، چونکہ سچ کی ایک خوبھی یہ بھی ہے کہ اسے یاد کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایک بچا جو گھر میں اپنی مادری ذبان سیکھنے، سکول میں قومی زبان سیکھنے مدرسے میں ملی زبان  اور دنیا میں آگے بڑھنے کے لئے عالمی زبان سیکھنے کی کوشش میں ہو کیا وہ واقعی سب پر عبور حاصل کرلیگا ؟  کیا ہنسنےسے زیادہ بیٹھ کر اس بات پر بات غور و فکر کرنے کی، تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں کہ  ہمارا تعلیمی نظام کس ڈگر پر ہے؟ کیا آنےوالی نسل صرف گزری ہوئی نسل کی سچی، جھوٹی کہانیوں پر رٹے لگا کر اپنا وقت ضائع کرے یا ہم نے ایک ایسے نظام کی طرف جانا ہے جو تخلیقی ہو، تحقیقی ہو، جو صرف اس لئے کسی مفروضے کو سچ نہ مانے کے اس کے آباواجداد نے بھی سچ مانا تھا بلکہ اپنے اندر وہ صلاحتیں پیدا کرے، جو سچ مانے گئے مفروضات کا آج کی روشنی میں تجزیہ کرے، اس کو پرکھے۔  سوال کرنے کی  ہمت پیدا کی جائے اور جو جوابات ماضی میں دیئےگئے ان بند سوالوں و جوابوں کو کھول کر نئے جوابوں کی طرف جایئا جائے۔

ورنہ ہم سب کے سامنے کھڑے ہو کر کہینگے کہ مجھے قومی ترانہ آتا ہے، مجھے قومی ترانہ آتا ہے۔۔۔ لیکن اندر یہ آواز بھی ہوگی کہ مطلب نہیں پوچھنا۔ ایسا تعلیمی نظام جو آپ کو ظاہری طور پر بڑھک مارنا سکھایئے لیکن اندر سے آپ کو کھوکلا کر دے اس میں تبدیلی ناگزیر ہے۔

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these