آپ نے اجازت دے دی ہے۔

میں پچھلے دو دن سے  یہ کوشش کر رہا ہوں کہ میرے اندر کچھ اس طرح کے احساسات پیدا ہوں کہ تھوڑا سا دکھ ہو، تھوڑا غم جاگے ،کوئی آنسوں ائے آنکھ میں، کھانہ کھانے کا دل نہ کرے، ٹی وی بند کروں ،میوزک نہ سنوں، اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر گھڑ گھڑاہوں،کرکٹ کا میچ نہ دیکھوں ۔۔میں اس مقصد کی خاطر بار بار روتے ہوئے معصوم بچوں کی تصویریں دیکھ رہا ہوں جو اس لئے رو رہیں کہ  کسی نے ان کو آکے کہا ہے کہ آپ کے والد کو قتل کر دیا گیا ہے، کیوں قتل کیا گیا اس کو جواب نہ ان بچوں کو چایے نہ ان کو دلاسہ دینے والے لوگوں کے پاس ہے

 

جراتمند پختونوں کی روتی ہوئی تصویریں بھی دیکھیں مگر پھر بھی کوئی خاص غم نہیں ہوا۔۔

 

556a21d63b890
  ،ہمارے دل شاید اتنے زیادہ مردہ ہوگئے ہیں کہ اب آنسوں،آہوں اور سسکیوں کو ہم اس وقت تک اہیمت نہیں دیتے جب تک کسی نیوز چینل پر چلتی ہوئی اس خبر کے پیچھے کوئی دکھ بھری موسیقی نہ چلتی ہو۔

 

کسی جگہ حملے کی خبر سنتے ہیں تو پہلا سوال یہ آتا ہےکتنے ہوے ؟

 

کون تھے ؟

 

خیر ہے ،ہوتا ہے چلتا ہے دنیا ہے۔۔

 

میں یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہوں کہ کیا ہوگیا ہمارے احساسات کو جزبات کو خیالات کو ؟

 

”شاید اس لئے کہتے ہیں کہ’Excess of everything is bad    ہم بحیثیت انسان ( صرف جسمانی طور پر) اس قدر اس ملکِ خداد میں ہمیں تشدد،شدت پسندی کے عادی ہوگئے ہیں کہ کوئی بیس،تیس لوگوں کے مرنے کا دکھ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا ہمارے لئے اور جس طرح اس دہشت گردی اور شددت پسندی کو میڈیا کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے گمان یہ ہوتا ہے کہ جسیے روزانہ کی بنیاد پر کوئی سین بنتا ہے لوگ لڑتے ہیں ،تھوڑی فائٹ ہوتی تھرلر ہوتا ہے بریکنگ نیوز ہوتی ہے،سیاستدانوں اور قانون ناٖفذ کرنے والے اداروں کے کچھ بیانات وہی پرانے دقیانوسی جھوٹ۔۔ اور آج کی کہانی ختم ایک نیا سین اگلے دن۔۔۔

 

اب ہمیں ایکشن فلمیں دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی بس روزانہ برینگ نیوز کہ اوپر برینگ نیوز دیکھتے ہیں، اور ایکشن کو برا ئراست دیکھ لیتے ہیں۔فرق یہ ہے کہ اس فلم کو ہم روک نہیں پار ہے ہم نہیں دیکھتے تو بھی چلتی رہتی ہے۔

 

سوال پوچھنے کی ہمت ہم سے بھی نہیں ہوتی سیاستدان اور ادارے ہم سے جھوٹ بولتے ہیں اور ہم اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں۔

 

بچپن سے یہ پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں کہ ہماری اجازت کے بغیر کوئی ہمارے ملک میں پر  بھی نہیں مار سکتا، کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دینگے۔۔۔

 

آج بھی یہ بات جھوٹ نہیں لگتی بس فرق یہ کہ ۔۔۔
آ پ نے اجازت دے دی ہے۔۔۔۔۔

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these

No Related Post