مقابلے۔۔۔ہمارے اور انکے

اس کے چہرے پر بے چینی تھی،جو عمومی طور اس دوران نظر آتی ہے جب آپ کوآنے والے کل کا انتظار ہوتا ہے اور آپ کو یقین ہوتا ہے کہ آنے والا کل آ پ  کو آپ کےمشن کے قریب لے جائےگا۔

میری اس سے دوستی کوئی زیادہ پرانی نہیں تھی لیکن جتنی بھی تھی بڑی ہی کمال کی تھی،یہ ہماری دوسرے ملک میں دوسری ملاقات تھی۔

چھوٹے سے درمیانے قد کے نوجوان کے اندر بیک وقت شرارتی اور سلجھے ہوئے شخص کی نشانیاں تھی۔

خیر شب کو صبح میں بدلتے دیر نہیں لگی اور سورج پہاڑوں کے درمیاں سے مسکراتے ہوئے سب کو مسکرا  کہ دیکھ رہا تھا۔

میرے اس دوست کی مسکراہٹ دیکھنے کے قابل تھی، اس نے کہا جلدی جلدی تیار ہو چلتے ہیں میرے بے جا اسرار پر بھی اس نے مجھے بتایا نہیں کہ جانا کہاں ہے، خیر میں بھی تیارہوکر اس کے ساتھ پیدل چل نکلا اور کھٹمنڈو کی تمل علاقے میں مصروف بازار میں تھے اس نے موبائل میں کچھ دیر نظر دوڑائی اور پھر ایک گلی میں داخل ہوگیا،گویا وہ موبائل سے اس پتے کا پیچھا کرتا ہوا آیا تھا۔

وہ دوکان کے اندر داخل ہوا اور میں باہر کھڑا ہوکر دیکھتا رہا اور پھر باہر نکلا اور میرا ہاتھ پکڑکر  اندر لے گیا ، یہ گویا ایک کتاب گھر ہے جس میں بے شمار کتابیں مختلف شلیفز میں پڑھی ہیں ارد گرد مختلف سیاح کتابوں کی چھان بین میں مصروف تھے۔

میں نے ان سیاحوں سے توجہ ہٹائی تو محصوص ہوا کہ میرا دوست بہت شدت سے کتابوں میں کھویا ہوا ہے گویا کسی بچے کو کھلونوں کی دوکان میں چھوڑدیا گیا ہو۔

مجھے قریب دیکھ کراس نے کتاب اٹھائی اور انگریزی زبان میں اس کی کہانی مجھے سناتا رہا ،کہ میں نے یہ کتاب کب پڑھی، اس میں کیا ہوتا ہے، الغرض ہر وہ چیز اس کتاب کے متعلق اسے یاد تھی وہ بتا تا رہا ہتاکہ اس کتاب میں میں موجود کرداروں کے مذہب،دنیا،معاشعرے کے متعلق سوچ کا بھی اسے علم تھا۔

میں صرف اثبات میں سر ہلاتا رہا اور موقع ملتے ہی ارد گرد گھومتے سیاحوں پر نظر ڈالتا رہا، اور ایک کتاب سے دوسری کتاب تک کرتے کہی کتابوں کے سیاق و سباق مجھے بتا تا رہا۔

اس نے کائونٹر تک پہنچنتے کئی کتابیں اٹھا لیں تھیں وہ آگے بڑا اور سیلز وومن کو کتابیں تھمائیں اور بل کی درخواست کی، سیلز وومن کیلکولیٹر پر جمع نفی کر رہا تھی کہ اس نے کا رکو ایک اور کتاب لینی ہے۔

میں نے کہا بھئی اتنی کتابیں کافی نہیں ہیں تو کہنے لگا نہیں یہ تمارے لئے رہا ہوں، تمہیں نہیں پتہ آج کتابوں پر میگا سیل لگی ہے

ہم دوکان سے تو باہر نکل آئے لیکن میں ابھی تک اپنی سوچوں میں الجھا ہوا تھا،

اس نے موبائل بڑھاتے ہوئے کہا یہ دیکھو، میں نے غور کیا تو یہ نظر آیا کہ بہت سی کتابوں کے نام لکھیں، میں ابھی کچھ کہتا اس سے پہلے ہی وہ کہنے لگا، یہ کتابیں میں نے پچھلے سال پڑھی ہیں جن کی تعداد پینتالیس ہے اصل میں میرا اپنے بھائی کے ساتھ مقابلہ ہے اس نے پچھلے سال پچپن پڑھیں اور وہ جیت گیا اس دفعہ میں جیتونگا کیونکہ یہ سال کا تیسرا مہینہ اور میں پینتیس کتابیں پڑھ چکا ہوں۔

میں اس کی آنکھوں کی چمک اور اس کے الفاظ میں موجود جذبے پر حیران ہی رہا اور اپنے ارد گرد کے نوجوانوں کے بارے میں سوچتا رہا کہ وہ کس کس مقابلے میں اور دنیا کہاں کہاں مقابلے کر رہی ہے۔

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these