جیت سے ذیادہ ہار کی خوشی

اعتزاز کو آج سے پہلے میں کبھی کرکٹ میں اتنا انٹرسٹ لیتے نہیں دیکھا، اس کی عمر قریبا” کوئی9سال ہے اور گائوں کے سکول میں دوسری کلاس کا طالبعلم ہے۔
پچھلے ایک ہفتے میں کئی  بار اس کو ہاتھ میں چھوٹی سی  بیٹ تھامے پتھر کو اچھال، اچھال  کر شارٹ مارتے پسینے سے شرابوں دیکھا۔ یہ ٹائم عموما” کوئی دوپہر کے 2 بجے سے 3 بجے کے درمیاں ہی ہو ا کرتا چونکہ وہی ایک ٹائم ہوتا ہے جو اس کو اسکول اور مدرسے کے درمیان وقفے کے طور ملتا ہے اور یہ وہی لمحا ت ہوتے ہیں جب سور ج اپنی نہیج پے ہوتا اور گرمی فل زور پر۔
 
اعتزاز کو پاکستانی کھلاڑیوں کے علاوہ صرف تین کھلاڑیوں کے نام آتے ہیں ایک ”ملنگا ” اس کی دو وجہ تھیں ایک تو اس کے بال اور دوسرا اس کا نام ملنگ سے ملتا جلتا ہے چونکہ گائوں میں ملنگوں کا آنا جانا زیادہ ہوتا ہے اور ہمارے ہاں وہ لوگ جو سانپ کا تماشہ دیکھاتے ہیں انہیں بھی ملنگ کہا جاتا ہے۔
 
دو اور کھلاڑیوں میں دو انڈین کھلاڑیوں کے نام آتے ہیں جن میں سے ایک دھونی اور دوسرا ویرات کولی، دھونی اس کو اس لئے یاد ہے کہ وہ ویرات کولی کے ساتھ پچھلے دو میچوں میں اچھی پارٹنرشپ بنا کے کھیلا اور ویرات کولی اس کا پسندیدہ کھلاڑی ہے، اب کیو ں پسند ہے اس کا ہمیں علم نہیں۔ مگر جب بھی سوال پوچھا جاتا کہ کون کھیل رہا ہے تو اس کا جواب ہوتا کولی اور کون جیتے گا تو بھی اس کا جواب کولی ہی ہے۔
آج جب انڈیا نے پہلے بیٹنگ کی تو اعتزاز بڑھے غور سے دیکھتا رہا چونکہ باقی گھر والوں کو ان دو ٹیموں میں اتنا انٹرسٹ نہیں تھا لیکن اعتزاز ہمارے گھر میں واحد شخص تھا جو آخر ی اور تک میچ کو دیکھتا رہا،جب کھیل کے دوسرے حصے میں میچ دوسرے حصے میں دلچسپ صورتحال میں داخل ہوا تو سارے لوگ ٹی وی سکرین کے ارد گرد جمع ہوگئے اور جب میچ انڈیا کے ہاتھوں سے نکلتے سری لنکا کی طرف بڑھتا گیا تو باقی کے چہروں پر قدرے خوشی اور اعتزاز کے چہر ے پر گیم کے پہلے حصے والی موجود خوشی کہیں دور جاتی رہی،
اور جب بیٹسمین نے آخری شارٹ مار کے سری لنکا کی جیت پکی کرلی تو گھر میں موجود باقی بچے اعتزاز کی طرف چیخ چیخ کر کہنے لگے ”کولی ہار گیا ،کولی ہار گیا، تھوڑی دیر اپنے آپ کو حوصلہ دینے کے بعد وہ آخر کا ر رو پڑا اور جب تک میں اٹھ کے دوسرے بچوں کو بگاتا وہ مسلسل سسکیوں میں رہا اور انہیں سسکیوں میں کھانہ کھائے بغیر ٹی وی کے سامنے قالین پر ہی سوگیا۔
 میں اس کو وہیں سوتا چھوڑ کے باہر آیا اور فیس بک اور ٹوئڑ پر جو نوجوانو کی طرف سے پوسٹس کی گئیں وہ میں دیکھ کے یہ گمان ہوا کے پاکستان میں نہیں سری لنکا میں رہتا ہوں اور جس قسم کی تصاویر کو ایڈٹ کر کے انڈین پلیئرز کی تصاویر کو اپلوڈ اور شئر کیا گیا اور جس قسم کے سٹیٹس شئر کیے گئے اس سے گمان یہ ہوتا تھا کہ لوگ سری لنکا کی جیت سے زیادہ انڈیا کی ہار پر خوش ہیں۔
کہ آخر اتنی نفرت کیوں ؟ کسی کے جیتنے کی خوشی سے زیادہ کسی کی ہار پر اتنی خوشی کیوں ؟

 

شاید ہمارے رویے اسطرح کے بن چکے ہیں کہ ہم لوگوں کو، ملکوں کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے یا ہمارے اندر برداشت کی کمی اس حد تک ہے جس کی کوئی مثا ل نہیں۔
 
اور ہم کامیاب لوگوں، اداروں، ملکوں میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی خامی نکال کر انکی کامیابی کو صرف ڈھونگ ہی بتلانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہم اپنی بے شرمیوں پر، اپنی کام چوری پر، اپنی نااہلی پر خوش رہیں۔
لیکن اگر اپنے آپ کو، اپنے ملک کو بدلنا ہے تو یہ رویہ بدلنا ہوگا۔
لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کسی ملک سے نفرت کیئے بغیر بھی اپنے ملک سے محبت کا اظہار کرسکتے ہیں، اپنے آپ کو محبِ وطن ثابت کرنے کے لئے کسی دوسرے ملک سے نفرت کرنا ضروری تو نہیں۔
 
ہم سے اچھے تو یہ بچے ہیں جو لوگوں کو کھلاڑیوں کو صرف اس لئے پسند کرتے ہیں کہ وہ اچھا کھیلتے ہیں نہ کہ وہ کس ملک کے کھلاڑی ہیں، ڈر اس دن کا جب اعتزاز بڑھا ہوجائیگا جب اعتزاز بڑھا ہوجائگا تو لوگ کہیںگے اگر اتنا ہی کولی پسند ہے تو پاکستان چھوڑ کے انڈیا کیوں نہیں چلے جاتے۔
Facebook Comments

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these

No Related Post