خود سے جھوٹ بولنے والی قوم

 یہ پاکستان کی ایک سڑک ہے جس پر شیدید ترین ٹریفک جام ہے ،آپ گھر پہنچنا چاہتے ہیں چونکہ ٹی وی پر پاکستان کا کرکٹ میچ چل رہا ہے اور آپ کا دل بے قرار ہے آپ فوراََ سے پہلے گھر پہنچیں اور ٹی وی کے سامنے براجمان ہوکر مزے سے ٹی وی پر میچ دکھیں۔
 
لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ ٹریفک شدید جام ہے اور آپ کا گھر جلدی  پہنچنا  بے حد مشکل ہے،چونکہ آپ میچ کے بھی شوقین ہیں تو آپ مین  سڑک پر کھڑے ہی رہتے ہیں اور اپنی جیب سے ایک عدد قدرے قیمتی موبائل نکالتے ہیں اور اس پر اپنے نیٹورک کے زریعے لائیو سٹریمنگ )یعنی براراست نشریات) کوبڑھے شوق سےنہ صرف خود انجوائے کرتے بلکہ ساتھ میں کھڑے دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی اپنی موبائل کی سکرین شئر کرتے ہیں۔

مطلب مزہ آگیا ،مطلب فل ٹائم بہترین،دل خوش کرنے والی صورتحال، نہ آپ کو کوئی خوف کہ کوئی موبائل چھین کے لے جائگا، نہ یہ خوف کہ پیچھے کھڑی گاڑی والا استاد آپ کو ماں بہن گالی دیگا، نہ آپ کو یہ پرواہ کہ ہماری سڑکوں پر موجود آلودگی ٓآپ کا حلیہ بگاڑ دیگی۔
 
آگے چلتے ہیں  اور آپکو ایک  پسماندہ سے گائوں میں لے جاتے ہیں وہاں پر کچھ بچے ہوتے ہیں، ہوتے تو گائوں کے بچے ہیں لیکن وہ بہت ہی ماڈرن سے کپڑوں میں ہوتے ہیں جن کو پینے کو  پیپسی بھی میسر ہوتی ہے لیکن وہ ہوتے ایک گاوٗں کے بچے ہیں۔

مطلب کیا ہی اعلی بات ہے کہ آپ کی ریاست جہاں روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا لگا کرحکومتیں بدلتی رہی ہے وہاں کے گائوں کے بچوں کو اسکول جانے کے لئے  اسکول نہیں اور کھانے کو مناسب خوراک نہیں لیکن وہ اعلی کوالٹی کے کپڑے پہن کر پیپسی پیتے ہیں اور کرکٹ کھیلتے ہیں۔
یہ صرف دو مثالیں جو آج کل ہمارے ٹی وی چینلز کی زینت بنے ہوئے ہیں،ایسے بے شمار اشتہارات جن کو ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنے ٹی چینلز پر دیکھتے رہتے جو بنائے تو صر ف اس دس فیصد طبقے کے لئے جاتے ہیں جن کو حرف عام میں اشرفا یا الیٹ کلاس کہا جاتا ہے لیکن دیکھنا پوری قوم کو پڑتا ہے، کبھی کسی بناسپتی گھی کے اشتہار میں دیکھائے گئے ہائی فائی کچن کے نقش و نگار،کبھی کسی جوس کے اشتہار میں دیکھائے دو یا ایک صحت مند بچوں کی صورت میں بہترین زندگی کی صورت میں۔
یا پھر کسی جھونپڑی میں رہنے والی لڑکی کی صور ت میں جس کی قسمت صرف ایک تیس روپے والی کریم صرف اس کا رنگ نہیں بدلتی بلکہ اس کی قسمت کا رنگ بھی بدلدیتی ہے اور کوئی امیرزادہ اپنی بڑھی سے کوٹھی سے نکلتا ہے ،بڑھی گاڑی میں سے بڑھی سی شیروانی پہن کر اترتا اور اس جھونپڑی والی لڑکی کو بیا کر لے جاتاہے۔
اور ہم آپ اور ہم سب اپنے گھر میں بیٹھ کر بڑے مزے سے یہ اشتہار دیکھتے ہیں اور دل ہی دل میں خوش ہوتے ہیں،
تھوڑا بہت سوچتے بھی نہیں کہ یہ کس دنیا کی تصویر ہمیں دکھائی جارہی ہے جو ہماری حقیقی زندگی سے بہت ہی دور ہے، شاید ہم ان کو اتنا سیریس نہیں لیتے کیونکہ ہمیں ہمیشہ سے اپنے آپ کے ساتھ جھوٹ بولنے کا عادی بنا دیا گیا ہے۔ ہمارہ نصاب ہماری راویتی کہانیاں ہمیں صرف اپنے آپ کے ساتھ جھوٹ بولنا ہی سکھاتی رہی ہیں،
ہماری صورتحال چاہے وہ ذاتی حد تک ہو یا قومی حد تک ہم بلکل اسی طرح ہے ہمیں کبھی بھی اپنے آپ  سے،اپنی ریاست سے یا اس کے اداروں سے سوال کرنے کا نہیں سکھایا گیا، بس جو بتایا جاتا رہا اس کو دیکھ کہ خوش ہوتے ہیں،تالیاں بجاتے ہیں اور پھر کوئی اور آتا ہے دوسرا اشتہار چلاتا ہے،ہم دیکھتے ہیں تالیںاں بجاتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔

 

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these

No Related Post