معیار سے مقدر تک

اس استاد کی آواز کی مٹھاس اور آواز کی گہرائی ابھی تک میری احساسات میں شامل ہےان کی یہ بات کہ چیزوں کی قیمت ہمیشہ ان کی مخالف چیزوں سےمعلوم ہوتی ہے،مجھے کافی عرصے تک یہ بات سمجھ نہیں آئی،لیکن میں اس کو جاننے کے لئے جستجوکرتا رہا،پھر ایک لمحہ آیا جب ہم میں سے بے شمار لوگ معاشرے کی طرف سے بنائے ہوئے خول میں اپنے اپنے چھوٹے سے خول بنا کے زندگی گزارتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس خول میں ہماری زندگی کی شام ہو جائے،چونکہ ہمارے ارد گرد کے بے شمار لوگ ہمیں ڈراتے ہیں کہ تم اس خول سے نکلوگے تو فیل ہوجائوگے،ناکام ہوجائوگے،اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا،چونکہ یہ ہمارے معیار ہیں جو ہم نے خود بنائے ہیں یا جو کسی اور نے ہمارے لئے بانئے اور ہم نے پیروی کر کے ان کو تقویت بخشی اور کسی کو اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ اس  معیار کو تبدیل کرے،کیونکہ ہر شخص آزادی اور آرام پسند ہے اور کوئی نہیں چاہتا کہ کوئی اسے برا کہے اس لئے جس نے دیکھا اس نے آنکھیں بند کرلیں اور کہا جو بھی ہے اچھا ہے،مثال کے طور پر آپ پرائمری سکول سے لیکر کالجز تک دیکھ لیں نقل سر عام ہوتی ہے،کچی کلاس کے بچے سے لیکر بی اے ،بی ایس سی کے طالب علم سب اس معیار میں جیتے ہیں،کسی کو احساس نہیں ہوتا،سب لکھتے ہیں دن رات ایک کر کے لکھتے ہیں اور نتیجہ آتا ہے سب پاس ہوجاتے ہیں،استا د بھی خوش،طالبعلم بھی خوش کیونکہ اس وقت ہمارا معیار پاس ہوناہے لائق ہونا نہیں،پھر جب سلسلہ آگے چلتا ہے اور نوکری نہیں ملتی پھر اخبارات میں خبروں کی بمباری شروع کردی جاتی ہے ،جس میں کہا جاتا ہے کہ چپڑاسی کی پوسٹ،بیلدار کو پوسٹ،کلرک کی پوسٹ،پر غیر مقامی برداشت نہیں کرینگے اور یہاں بات پھر معیار پر آتی ہے چناچہ ہما را معیار ہی وہیں تک محدود ہے اور اس سے آگے والی پوسٹ کے لئے آپ نے کبھی کوئی بیان شاید ہی پڑھا ہو۔

یہ صرف ایک چھوٹی سی مثال تھی جس سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی کے کس طرح ہمارے معیار ہمارا مقدر تبدیل کرتے ہیں،اب سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ یہ معیارا کون طے کرتا ہے،یہ معیارا ت ہمارے ذہنوں میں ایک خیال کی طرح اچانک سے نہیں آتے یہ وقت لیتے ہیں،ہم یہ معیارات زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد موجود لوگوں کی ذندگیوں سے سیکھتے ہیں جیسے کے والدین،بھائی بہین،دوست اور پورے معاشرے سے، پھر آپ سوچیں گے وہ تو ٹھیک ہے مگر یہ معیارات تبدیل کیسے ہونگے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کے تبدیلی ہر صورت میں آئیگی اب سوال کی کوئی گنجائش نہیں کہ آپ تبدیلی قبول کریںگے یا نہیں کیونکہ ہمارے پاس یہ آپشن نہیں بلکہ غور اس بات پر کرنا ہےکہ آپ کسطرح آپنے آپکو تبدیلی کے ساتھ ایڈجسٹ کرینگے، آپ نے اگر اپنا مقدر بدلنا ہے تو اپنا معیار بدلنا ہوگا،یہ کیسے تبدیل ہوگا اس کے لئے غور و فکر کی ضرورت ہے علم کی ضرورت ہے وہ علم جو کتابوں سے حآصل ہوتا ہے نا کہ وہ جو آپ فاروڈنگ مسیجز کے ذریعے حاصل کرتے ہیں اور جس کی بنیاد پر پوری دنیا سے بحث کرتے ہیں،

نئی راہیں تلاش کریں،کسی کے بنائے ہوئے رستے پر مت چلیں اپنے رستے خود بنائیں،آج تک جن لوگوں نے آپ کوڈرایا کہ آپ کچھ نہیں کرسکتےان سب نے آپ سے جھوٹ بولا ہے،ہر آنے والا دن آپ کو موقع دیتاہے اپنی زندگی بہتر بنانے کا ،اپنے معیارات بدلیں اور یقین مانیں یہ ہی آپ کا مقدر بدلیںگے۔ پھر آپ کوئی شکایت نہیں کرینگے چونکہ شکایت کرنا تو بذل لوگوں کا کام ہے آپ ہاں آپ تو بہادر ہیں۔

 

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these

No Related Post