حساب و کتاب والی محبت

بحث شاید اتنی طویل نہیں تھی اسی  لئے اس کافی کی ٹیبل پر ہی کسی حد تک ختم ہوگئی میں نے اپنا بیگ سنبھالا اور اس کو خدا حافظ کہے کے اپنے اپارٹمنٹ کی طرف چل دیا،اس شہر میں اتنا شور نہیں لیکن ذندگی بھرپور انداز میں رواں دواں ہےسائیکلوں پر آتی جاتی خواتین اور بچے رونق کو بحال رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں،

ا گلے موڑ پر جب پیدل چلنے والوں کے لئے سگنل گرین ہوا تو چوک کے چاروں اطراف کی ٹریفک ایک دم رک گئی اور پیدل چلنے اور سائیکل سواروں نے روڈ کراس کرنا شروع کردیا

لیکن ابھی تک میرے ذہن کو  کچھ سوالات کے جوابات کی تلاش تھی ،میں  مجھے ایسا لگتا ہے کہ بعض سوالوں کا جواب ڈھونڈنا مشکل ہوتا اور کچھ کے جوابات ہوتے ہی نہیں بلکہ بقؤل میرے استاد کہ بعض سوالوں کا اصل مقصد جواب کی تلاشی نہیں ہوتا بلکہ ذہن میں اس سوچ کی پرورش پانا ہوتا ہے جو اس سوال کے نتیجے میں جنہم لیتی ہے ۔

نہ جانے لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ وہ ایک طرفہ محبت تھی  مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ محبت میں اطراف کا کیا تعلق ؟ اگر اس بات کو مانابھی جائے کہ محبت دو طرفہ ہونی چاہیے، تو میرے نزدیک یہ محبت نہیں کاروبار کی کوئی قسم ہے کہ آپ کچھ دو گے توآپ کو کچھ ملیگا ؟    

ساری گفتگو سے دوسرا سوال میری سوچ گردش کرتا رہا ،کون کسطرح یہ طے کرپاتا ہے کہ کون کس سے کتنی محبت کرتا ہے ؟ کیا اس پیمائش کا کوئی آلہ ہے یہ کوئی ایسا میٹر کہ پیمائش کی جاسکے ؟

میرا دوست ٹھیک کہتا ہے کہ ”

 ‘’We don’t fall in Love, We Raise in Love ‘’                                                                                                        

ہم محبت میں گرتے نہیں بلکہ ہم محبت میں بڑتے ہیں،                                                                                                                   

نہ جانے ہم کب تک ذات پات،مال و دولت ،حوس کے نام پر محبت بیچاری کو بدنام کرتے رہینگے، کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ محبت کو ایک شخص،ایک قبیلے،ایک قوم،ایک ملک سے بڑھا کر سب کے لئے کیا جائے ؟ محبت کے دیس کی کوئی سرحدیں نہیں۔

ہمارے ہاں ہر شخص محبت کی اپنے انداز میں تعریف کرتا ہے اور اپنے محبوب کو سوچ میں رکھ کر بیان کرتا ہے ،اور یہی شاید محبت کی خصوصیت ہے کہ وہ سب کے ساتھ فٹ ہوجاتی ہے،

ہمارے ہاں جو چیزیں بغیرتی کے ذمرے میں آتی ہے وہ یا ں محبت کہلاتی ہیں، ہماری  محبت کی سب تعریفیں بیکار ہیں،

مولانہ جلال الدین رومی فرماتے ہیں کہ ”میں محبت کی بے شمار تعریفیں اخذ کرتا رہا،لیکن جب مجھے خود محبت ہوئی تو مجھے اپنی ساری تعریفوں پےشرمندگی کا احساس ہوا۔

 

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these

No Related Post