ساری رات بارش برس برس کر زمیں سے اپنی محبت کا اظہار کرتی رہی اور صبح سویرے سورج کی کرنیں وادی کوئٹہ کے پہاڑوں اور بادلوں کے درمیان سے ایک نئے دن کو خوش آمدید کہے رہی تھیں،سب کی طرح میرے لئے بھی یہ یقینا ایک خوبصور ت احسا س تھا اور ایسے موسم میں اگر سفر کا ارادہ تو سفر اور بھی پرلطف ہوجاتا ہے،
میں دیگر مسافروں کی طر ح کوئٹہ بس اڈے سے بس میں اپنی منزل کے لئے سوار ہوا،بس بڑی آب و تاب کے ساتھ ہارن بجاتے کوئٹہ سے نکلنے کے لئے روانہ ہوئی ارد گرد کا موسم انتہائی عاشقانہ اور قدرتی حسن سے بھر پور تھا ہلکی ہلکی بارش ڈرایؤر کو بار بار ونڈ سکرین صاف کرنے کی عمل سے گذارتی رہی،جوں جوں ہم آبادی سے باہر آتے رہے موسم اور نظاروں کی خوبصورتی میں مذید اضافہ ہوتا رہا اور ہر مسافر کا چہر کھلکھلا اور مسکراہتا دکھائی دیا، پھر یہ ہوا کے ڈرایؤر صاحب جن ہاتھ بار بار کی ٹرن مارنے کی ذحمت سے فارغ ہوئے تو ان کا ہاتھ گاڑی کے میوزک پلیئر کی طرف بڑھنے لگا انہوں اس کے اند ر موجود پہلے سے لگی کیسٹ نکالی اور کیسٹ بکس سے اپنی پسند کی ایک اور کیسٹ لگائی اور ہلکی دھن کے ساتھ میوزک شروع ہوا۔۔
وہ موسیقی کسی بھی صورت میں اس موسم کی عکاسی نہیں کرتا تھا،گانوں کا یہ کلیکشن اس وقت کے انتہاہی غمیگین گلوکار کا تھا او ر اس کے الفاظوں اور دھنوں سے یہ خیال آتا تھا کہ گویا ساری دنیا کے غم اسی شخص کے سینے میں دفن ہیں ڈرایؤر کی پسند دیکھ کر مجھے بھی یہ یقین ہوچلا کے ڈرایؤر حضرت کو بھی کہیں سے بے وفائی کا ٹیکہ لگ چکا ہے اور کچھ پرانے غموں کا تعلق اسی موسم سے ہے،
مجھے چونکہ اس قسم کا میوزک پسند نہیں تو میں نے پہلی ہی فرست میں اپنے بیگ سے اپنا میوز ک پلیئر نکالا اور ہیڈ فون کانوں پر سوار کرکے اپنی پسند کا میوزک سنتا رہا، اس دوران جب میں نے اپنے ارد گرد موجود دوسرے مسافروں کی طرف نظریں گمائیں تو یہ احسا س ہوا کہ میرے علاوہ موجود تمام مسافر اس میوزک کے بعد باہر کی خوبصورتی کو بھلا کر اپنے اپنے غموں کی گہر ی یادوں میں کھو چکے ہیں، پھر گاڑی چلتی رہی اور سارے غم گاڑی میں لگے سپیکروں کی مدد سے لوگوں کی تلخ یادوں تک پہنچتے رہے ۔
جب خضدار سے ڈرایؤر صاحب کی جگہ ان کے نائب نے سنبھالی تو وہ کچھ شوخ دل انسان تھے اور انہوں انے اپنی پسند کے مطابق انتہاہی محبت بھرے نغموں کی کیسٹ چلادی، چلانے کی دیر تھی کی ایک دم سے وہی مسافر پھر خوشی کے آسمانوں میں اڑنے لگے جو تھوڑی دیر قبل غم کے دریاؤں میں غوطہ خوری میں مگن تھے،
یہ سار ہ منظر دیکھ کر میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیا اس سارے سفر میں ان مسافروں کی مرضی کیا صر ف اتنی تھی کہ وہ اپنی منزل تک پہنچے، بغیر اس چیز کو جانیں کہ ان کا سفر کس طرح گزرتا ہے اور ان کی ساری مسافت ایک ڈرایؤر کے احساسات کی غلامی میں گزر جائے یا وہ اپنی سفر کو اپنی منشاء اور پسند کے دھنوں کے ساتھ طے کر کے منزل تک پہنچے۔
مجھے لگتا ہے ہمارا معا شعرہ ہمیں اپنے آپ سے ذیادہ باہر کے حالات کا غلام بنا دیتا ہے کہ جو میوزک چل رہا ہے اسی پے چلو اگر غم کا میوزک چلایا جا رہا ہے تو غمگین ہوجاؤ اور خوشی کا تو خوش کا۔ جو سسٹم چل رہا ہے چلنے دو جو ہوتا آرہا ہے اس ہونے دو،
شاید اس سارے عمل میں انسان کی خودی کھو جاتی ہے مسافر یہ بھول جاتا ہے کہ اس کو بھی خدا نے کچھ عقل دی اور شعور دیا ہے سوچنے کا غور و فکر کرنے کا،مگر یہ کم عقل انسان دوسرے کی پسند پر اپنی ذندگی ذائع کرتا رہتا ہے اگر یہ کبھی غور کرتا تو اپنے آپ کا میوزک پلئیر ضرور خرید لیتا اور ذندگی کو ایک نئے نظریے سے دیکھتا اور اپنی پسند کی دھنیں سنتا اپنی سوچ کے مطابق فیصلے کرتا دقیانوسی سوچ کو چھوڑدیتا اور خوش رہتا اور اپنی منز ل مقصود تک پہنچ جاتا۔