یونیورسٹی کی بس ہمارے پہنچنے سے چند لمحے پہلے نکل چکی تھی، مجھے اور میرے ایک دوست کو اپنے ہاسٹل تک پنچنے کے لئے رکشے کو روکنا پڑھا،رکشہ ڈرایئور جس کی عمر کوئ پچاس ،پچپن سال کے قریب ہوگی سر تھوڑے سے سفید بال اور موٹی عینک انکی عمر کا اندازہ دے رہی تھی، میں نے اپنی مطلوبہ جگہ جانے کا معلوم کیا تو اس شائستہ انداز میں جواب دیا کہ میں ان سے کرائے کے بارے میں معاملات طے نہ کر سکے اور رکشے میں سوار ہوگئے۔
اسکول اور دفاتر کی چھٹی کی کا وقت تھا تو روڈ پر رش زیادہ تھا، جگہ جگہ سڑک کی کھدائی کی وجہ سے مٹی اور گرد سانس لینےوالے کے لئے عذاب کا معمول ہے، اسی دوران تیز جاتی ہو ئی کار جو اپنے پیچھے مٹی کا طوفان چھوڑگئی وہ رکشہ ڈرایئور کو نہ رکنے والی کھانسی میں گرق کر گئی۔
ابھی آدھا ہی راستہ طے ہوا تھا،کہ میرے موبائل کی سکرین پر پیغام نمودار ہوا ،جس میں یہ خبر تھی کہ امریکہ نے شام پر حملے کا فیصلہ کر لیا، میں اپنے لئے پڑھنے کا بعد ساتھی دوست کے لئے بلند آواز میں پڑھا، پہلے ہی لمحے میں اس نے پیغام کا استقبال امریکہ کو دل کی گہرائی سے گالی دے کیا ، جسیے امریکہ اس کے سامنے کھڑا یہ گالی سن رہا ہو،
میرا دوست کہنے لگا کہ امریکا مسلمانوں اور اسلام کا دشمن ہے پہلے اس نے افغانستا ن پر حملہ کیا پھر عراق پر اور وہ اب شام کی طرف ریکھ کر رہا ہے، اصل میں اس کو دہشت گردی سے کوئی مطلب نہیں بلکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہے، اور وہ مسلسل امریکہ کہ خلاف اپنے خیالات کا اظہار کر رہا تھا۔
میں خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا، اسی دوران میں نے اپنےسامنے لگے چھوٹے سے آہینے میں اس ادھیڑ عمر کے رکشہ ڈرایئور کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ محسوس کی تو مجھے یہ لگا وہ میرے دوست کی جزباتی باتوں پر دل ہی دل میں ہنس رہا ہے۔
میں نے بھی بات بڑھاتے رکشہ انکل کو بھی گفتگو میں شامل کرتے ہوئے،ان سے سوال کیا انکل آپ کیا کہینگے ۔۔۔؟
وہ تھوڑا ہنسے پھر بولے،میں امریکہ کو برا نہیں کہتا، کیونکہ ہم سب چھوٹے چھوٹے امریکہ ہیں،
میں نے کہا میں آپکی بات سمجھا نہیں،
تو انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ امریکہ کیا کرتا ہے؟
،میں بولتا اس سے پہلے ہی میرا جزباتی دوست بول اٹھا کہ امریکہ اپنی طاقت کا غلط استعمال کررہا ہے، اپنی مرضی سے فیصلے کرواتا ہے،کمزور ملکوں کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتا ہے،امن قائم کرنے کے کہا کہ وہ کے وسائل پے قبضہ کرتا ہے،اپنے فائدے کے لئے دوسروں نقصان پہنچا دیتا ہے، اسرایئل جیسے ملکوں کا ساتھ دیتا ہے،
میرا دوست بولتا رہا اوروہ مسلسل ہنستے رہے۔
جب میر ا دوست خاموش ہوا تو وہ بولے بیٹا جو باتیں تم نے امریکہ کے بارے میں بتائیں، وہ سب عمل ہمارے تمہارے درمیان رہنے والے بے شمار لوگ بھی کر رہے ہوتے ہیں،
اگر اپنے ارد گرد دیکھو تو بے شمار لوگ ملیں گے جو اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے رہتے ہیں، کبھی قانون توڑتے ہوئے اور کبھی کسی غریب کی بیٹی کی عزت تار تار کر تے ہیں، بے شمار ایسے لوگ ہیں جو پیسے کی بنیاد پر انصاف کے ایوانوں سے اپنے حق میں فیصلے دلواتے ہیں،یہاں کے وڈیرے،سردار،سیاستدان لوگوں کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں، یہاں لوگ کہتے ہیں ہم تمہارے گھر کی عزت بچائنگے پھر وہی رکھوالے اسی کی عزت کو ملیا مٹ کرتے ہیں ،ہماری ہی جماعتیں دہشت گرد تنظیوموں کو،عسکریت پسندوں کو اپنے فائدے کے لئے پروٹیکشن دیتے ہیں، یہاں لوگوں پر خون خوار کتوں کو چھوڑدیا جاتاہے،
اصل میں مسلہ طاقت کا ہے یہ جس کے پاس جتنی بھی آئیگی وہ اس کا اسی طرح استعمال کرتا ہے،
چاہے وہ امریکہ وہ یا میرے اور تمہارے درمیان میں سے کوئی شخص ہو۔
ہم ابھی اس گفتکو میں کھوئے ،اپنے آپ سے کہی سوال کر رہے تھے۔
کہ انہوں کہا بیٹا آپکی منزل آگئ ہم دونوں نے حیرانگی میں دیکھا تو اپنی منزل تک پہنچ چکے تھے
،ہم نے ان کو پیسے دیئے اورذہن میں کئی سوالات کے ساتھ ہاسٹل میں داخل ہوگئے۔