انور صاھب مسلسل غصیلے اور جزباتی انداز میں برمی لوگوں پر ہونے والے مظالم کی دکھ بھری داستان سنا ئے جار ہے تھے اور حکمرانو ں کی غیرت کو للکار تے ہوئے پچھلے ادوار کے ان لوگوں کا زکر کر رہے تھے جنہوں نے مظلوم کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہزاروں میل دورسے آکر ان کو ظالموں سے نجات دلائی۔۔۔
انور صاھب جو ایک رئٹائرڈ ماسٹر ہیں اور فن تقریر میں خاصا کمال رکھتے ہیں، ان کی محفل میں ہمیشہ کی طرح آج بھی زیادہ ہی لوگ تھے۔
تمام لوگوں پر انور صاھب کی شعلہ بیانی کی وجہ سے، ایک خاص قسم کی کیفیت طاری تھے، سوائے ایک صاھب کے جو ایک ہاتھ سے سگریٹ کے سوٹے لگار رہے تھے اور دوسرے ہاتھ میں چابی سے اپنے کان کی صفائی میں مصروف عمل تھے۔۔۔
انور صاھب چونکہ استاد رہے چکے تھے تو جلدی ہی ان صاھب سے پوچھ بیٹھے ہاں بھائی آپ کی غیرت نہیں جاگتی یہ سن کر۔۔۔
وہ صاحب بولے، ماسٹر صاحب، ہمارا بھی دل چاہتا ہے اسی طرح بولیں ،لیکن ہمارا ضمیر ہم سے کہتا ہے، اتنے دور رہنے والے انسانو ں کا تجھ کو دکھ تو ہوتا ہے لیکن تیرے ہی شہر میں رہنے والے لوگوں پر تمہیں کبھی دکھ نہیں ہوا ، جن کی پوری نسل کو اجاڑ دیا گیا، جن کی شناخت کر کر کے مارا جاتا رہا، جن کے جنازوں تک کو بھی نشانه بنایا گیا، جن کی سینکڑوں لاشیں منفی درجہ حرارت میں چار دن کو سڑکوں پر پڑی رہیں، اور تو ان لوگوں کو تو برا کہتا ہے لیکن اپنے ملک میں رہنے والے لوگوں کے خلاف بولنے کو تو تمہارے منہ بند تھے گویا جو تمہارے جوانوں کے سر کاٹ کر فٹبال کھلیتے رہے، جو تمہارے بچوں کو پوائنٹ بلینک پر گولیاں مار مار کر ہلاک کرتے رہے، جنہوں نہ تمہارے اسکول چھوڑے ،نہ مدرسے،نہ مساجد،نہ گرجا گھر،نہ مندر۔
ان مظالم کے خلاف تو کبھی نہ بولا، اب میں بولتا ہوں تو میرے اندر کا انسان میرا ساتھ نہیں دیتا۔
ماسٹر صاھب مجھے لگتا ہے ہم کو مرنے والے کا دکھ نہیں بلکہ مارنے والے پر غصہ آتا ہے، اگر کوئی اپنا مارے ٹھیک لیکن کوئی دوسرا ہو تو، تیری ایسی کی تیسی۔۔۔۔سب پر سکتہ طاری کرنے والے ماسٹر صاھب پر آج گویا سکتا طاری ہوگیا ہو،
محٖفل میں مسلس خاموشی اور ایک نئی تیلی ایک نئے سگریٹ کے سلگا چکی تھی۔۔۔