کراچی کے اس مصروف ترین روڈ پر ٹریفک کا ذور کم ہونے کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ نماز جمعہ کا وقت تھا۔ مجھے سڑک پار کر کے دوسری طرف واقع دفتر میں جانا تھا۔
چونکہ مجھے تھوڑی جلدی بھی تھئ،ٹریفک بھی قدرے کم تھی ، سو بجاے میں پیدل افراد کے لئے بنائے گئے پل کو پیٹھ پر لدھے اس باری بیگ کے ساتھ کراس کرتا جو خاصہ وقت والا کام تھا۔
سوچا کیوں نہ بیچ سڑک سے کراسنگ کی جائے میں نے اپنے کے بیگ کے رسے کھینچ کر تھوڑے ٹائٹ کیئے، چشمے کو آنکھوں سے ہٹا کر بیگ کے اندر رکھ دیا اور گہر ی سانس لیکر سڑک کو کراس کرنے کی غرض سے نیچے اترا۔
ایک قدم آگے،آیک قدم پیچھے ، کرتے کرتے آخر کار ایک موقع ایسا آیا کہ میری دماغ کی کلکولیشنز نے مجھے بتا یا ،کہ اگر میں اتنی سپیڈ سے گیا تو میں سڑک کا یہ حصہ کراس کر جائوں گا۔
ایسا ہی ہوا، اور میں سڑک ایک حصہ کراس کرگیا
،
اب میں سڑک کے درمیاں لگے ہوئے درختوں کے درمیاں ہوں۔ میرے پیچھے مشرق کی طرف جاتی ہوئی گاڑیا ں ہیں اور دوسری طرف مغرب کی طرف جاتی ہوئی گاڑیاں۔
یہ دھوئیں سے رنگ آلود پتے ہرہوا کے جھونکے کے ساتھ کالک میرے چہرے اور کپڑوں پر ملتے رہے۔
اب صورتحال یہ کہ ٹریفک اتنی ذیادہ تھی کہ میں اگلی سڑک کراس نہیں کر پارہا تھا۔
دو تین دفعہ کوشش کی لیکن چونکہ میں درختوں کے درمیان تھا اور آگے سڑک بھی تھوڑی مڑی ہوئی تھی تو میں فیصلہ نہیں کر پار ہا تھا کہ گاڑی آرہی یا نہیں۔
تھوڑی بہت جگہ تبدیل کی پر چونکہ موڑ تھا اور گاڑیاں اس تیزی میں اچانک نکل آرہی تھیں کہ میں روڈ نہیں کراس پاسکتا تھا۔
میں نے حصاب لگایا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر یہ وزن میرے کاندھوں پر نہ ہوتا تو شاید میں یہ سڑک کراس پاتا۔
اس ساری صورتحال میں کوئی 25،30منٹ لگے وہ بھی شدید پریشانی اور غیر یقینی صورتحال میں گزرے،میں نے پھر سوچا کہ واپس جایا جائے اب میں نے واپسی کا اردہ کیا۔
مگر اب واپسی کے لئے بھی شاید دیر ہوگئی تھی،چونکہ ٹریفک دوسرے روڈ پر بھی ذیادہ تھی۔
لیکن چونکہ یہ سڑک تھوڑی سیدھی تھی تو جیسے مجھے موقع ملا میں نے دوڑ لگائی اور بچتے بچاتے آخر کار میں واپس اسی جگہ پہنچ چکا تھا، جہاں سے سفرکا آغاز ہوا تھا۔
لیکن اس دوران دو موٹر سائکل والوں کی طرف سے لعنت ملامت سننے کا موقع ملا۔
اس طرف ہوکر میں سڑک کے ساتھ بنی فٹ پاتھ پر جا کر بیٹھ گیا اور گہری سانسیں لینے لگا،اور میرا چہرا مسلسل پسینے سے شرابوں اور لال ہوچکا تھا اور پائوں میں ہلکی سی تھر تھرا ہٹ تھی۔
کچھ دیربعد میں وہاں سے اٹھا،ساتھ ہی دکان سے جوس پیااور انسانوں کی طرح پل کراس کیا اور اپنی منزل پر جا پہنچا۔
میں سارے رستے یہ ہی سوچتا رہا، کہ شاید ہم میں سے بیشتر لوگ اپنی زندگیوں میں بھی انہی غلطیوں کو دوراتے رہتے ہیں۔
اور منزل کے حصول کے شارٹ کٹ طریقے اپناتے رہتے ہیں۔ اور اس شارٹ کٹ کے چکر ہم ایسی بے شمار الجنوں میں پھنس جاتے ہیں جو ہماری زندگیوں کو اجیرن بنا دیتی ہے۔
لیکن وقت ہمیں کم ہی صیح مگر مواقع ضرور فراہم کرتا ہے کہ پیھچے کی طرف مڑیں ایک قدم پیچھے لیں اور اچھائی اور محنت کے رستے پر واپس چلتے ہوئے اپنی منزل کو پہنچیں۔