ایک دن بلوچستان کی بچیاں بلوچستان بدلینگی۔
قیصر رونجھا۔
بلوچستان میں مسائل کی کمی نہیں۔ مگر یہ امید بھی نہیں توڑی جاسکتی ہے کہ مسائل کم نہیں ہونگے۔ دنیا کا دستور ہے، وقت کے ساتھ، پرانے مسائل کے لئے نت نئے حل نمودار ہونے لگتے ہیں۔ انسانی سوچ میں وسعت آتی ہے اور ایسے مسائل جو صرف اپنی تنگ سوچ کی بنیاد پر پالے بیٹھا ہوتا ہے، سوچ کے نئے ڈگر پر پہنچتے ہی حل سے آشنا ہو جاتا ہے۔
دہشت گردی، غربت، ماحولیاتی تبدیلیاں، بوسیدہ سرکاری نظام یا بے شمار اور مسائل جن میں سے اکثریت کاسیدھا تعلق انسانی رویوں سے ہے۔ توگویا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ رویوں کی تبدیلی بہت سے مسائل کی حل کی جانب ایک مکمل حل تو نہیں لیکن پہلا قدم ضرور ثابت ہوسکتا ہے۔
آج دنیا بھر میں بچیوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، دن کا مقصد بچیوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے میں ان کا ساتھ دینا ہے اور ان کے لئے ایک محفوظ اور سازگار ماحول کی فراہمی کی یقن دہانی ہے جہاں وہ نہ صرف آگے بڑھنے کے خواب دیکھ سکیں بلکہ ان کوپورا کرنے لئے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرسکیں۔
بلوچستان میں جہاں معاشرہ ابھی تک بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لئے کشمکش کا شکار ہے اور ان سارے معمالات میں ہم ، خواتین بالخصوص بچیوں کو بھولتے جارہے ہیں، جہاں اعداد وشمار کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں بچے سکولوں سے باہر ہیں جن میں اکثریت بچیوں کی ہے۔ اور جہاں اسکولوں کی فراہمی ہے وہاں کے تدریسی عمل کے معیار کو کئی سوالات کا سامنا ہے۔
آفتیں قدرتی ہوں یا انسان کی اپنی ایجاد کی ہوئی، خواتین بالخصوص بچیاں شدید متاثرین کی فہرست میں اول درجے پر ہوتی ہیں۔اور اگر خا ص کر یہ آفات ثقافت، تہذیب قبائلی رواج اور روایات سے بھرپور جغرافیائی خطوں میں پیدا ہوتی ہوں تو ان آفات کی شدت کا اندازہ بالخصوص خواتین پر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ بچیوں کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں اور بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں بہت سے اور مسائل سر اٹھائے پھر رہے ہیں وہاں شاید ہی کوئی سوچ رہا ہے کہ بلوچستان کی بچیوں کا کیا ہوگا۔
بلوچستان کے معاشرے نے خود ایک ایسی رویات کی پروان چڑھانی ہے جہاں بچیوں کو آگے بڑھنے کے مواقع مل سکیں، جلدی عمر کی شادی جیسی روایات کا خاتمہ ممکن ہو سکے، ایسے منفی رویوں کی حوصلہ شکنی جہاں بچیوں کی قائدہ صلاحیتوں پر روایتی دقیانوسی سوچ پروان چڑتی ہو، گھروں یا کام کرنے کی جگہوں پر کسی بھی قسم کی جنسی، یا ذہنی تشدد کی شدید مخالفت ہو۔ جہاں یہ ذمہ داریاں حکومتِ وقت کی ہیں وہیں پر گھروں، بازاروں کام کرنے جگہوں پر موجود مرد حضرات کی بھی ہے۔ کہ وہ ایسے سماج کی تعبیر یقینی بناہیں جہاں بلوچستان کی بچیاں نہ صرف یہ خواب دیکھ سکیں بلکہ پورا بھی کریں کہ ایک دن بلوچستان کی بچیاں بلوچستان بدلینگی۔