ٹی وی کی بریکنگ نیوز کچھ چانی پہچانی تھی، نیوز کاسٹر طنزیہ سکراہٹ کے ساتھ یہ خبرسنائے جارہی تھی کہ تقریب کے دوران کارکنوں کا کیک پر حملہ،اور چھینا چھانی۔۔۔۔
اور ویڈیو میں دیکھایا جار ہا تھا کہ کچھ لوگ کسی پارٹی کے رہنما کی سالگرہ کی تقریب میں کیک پر حملہ وار ہورہے ہیں اور زیادہ سے بھی زیادہ حاصل کرنے کے چکر میں مصروف عمل تھے،
ویڈیو میں یہ بھی دیکھنے کا موقع ملا کہ اگر آپ کا قد زیادہ لمبا ہے، تو آپ ایسے مواقع پر اپنے قد کا بھر پور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
غالب گمان یہ ہے کہ نیوز کاسٹر یہ سوچ کر خوش تھی کہ اس حرکت سے مخصوص پارٹی کے وقار میں کمی واقع ہوگی۔
یہ اس قسم کی پہلی خبر نہیں تھی بلکہ ہم آئے روز اس قسم کی خبروں کا دیدار کرتے رہتے ہیں، کہیں پر چائول کی دیگ پر حملہ ،تو کہیں کیک پر حملہ اور بعض اوقات تو صورتحال اس قد ر شدت اختیار کرجاتی ہے کہ میزبانوں کو کرسیاں اور زمین پر بچھے قالین بچانے کے لئے لاٹھی چارج کا سہار ا لینا پڑتا ہے۔
یہ صورتحال صرف سیاسی جلسوں میں پیش نہیں آتی بلکہ شادیوں،عوامی محفلوں، سوئم، چہلم کی تقریبات غرض ہر اس جگہ رونما ہوتی ہے
جہاں پر یہ دوچیزیں ایک ساتھ پائی جاتی ہوں، کھانا اور عوام ۔
اور یہ عمل صرف مخصوص طبقے اور کسی خاص قسم کے لوگوں تک محدود نہیں، میں نے یہ صورتحال گائوں کی سطح پر ہونے والی چھوٹی موٹی شادیوں ، واعظ کی تقریبات، عرص کی تقریبات اور بڑی سطح پر بڑھے شہروں کی فائیو سٹار ہوٹلوں اور بڑھے بڑھے شادی ہالوں میں ہوتے دیکھا ہے۔
ایسا لگتا جیسے کھانا سامنے آجاتے ہی کوہی کہیں سے یہ اعلان کرتا ہے ۔۔ایک ،دو ،تین ۔۔۔۔۔۔۔اٹیک
اور پھر پلیٹس کے ساتھ وہ صورتحال ہوتی جو ان کے بنانے والے نے بھی کبھی نہیں سوچی ہوگی ، جس پلیٹ کو ایک ہی بندے کے حصاب سے بنایا گیا تھا اسمیں دس بندوں کا کھا نا ڈالا،معاف کی جیئے گا بلکہ ٹھونسا جاتا ہے۔
اور اتنے آئٹم ایک ساتھ ٹھونسے جاتے ہیں کہ بوٹیاں خود ہی پریشان ہوتی ہیں کہ میں قورمے کے ساتھ آئی ہوں ؟ یا بریانی کے ساتھ اور اسی پلیٹ میں کھیر کو دیکھ کر بوٹی کا کردار اور بھی مشکوک ہو جاتا ہے۔
اور اگر لوگ ذیادہ ہوں اور کھانے کے انتظامات کم نظر آتے ہوں تو آپ کو اکثر ٹیم ورک کی بہتری حکمت ِعملی نظر آئیگی جہاں پر قد اور عمر کے حصاب سے ڈیوٹی لگائئ جاتی ہے، مثال کے طور پر اگر آپ لمبے ہیں تو روٹیاں لانا آپ کی ذمہ داری چھوٹے قد کے ہیں تو بوتلیں لانا آپ کی ذمہ دار اور طاقت ور کو ہمیشہ
سالن اور چائول کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔
پڑھایا گیا تھا کہ صبر میں برکت ہے مگر اگر اس صورتحال میں صبر کا مطلب آپ کے حصے میں صرف خالی برتن ہے۔
کوئی ان لوگوں سے یہ پوچھے ،کہ بھائی کتنا کھاوگے، یہ جو پیٹ میں ڈال رہے کتنے دن تک چلے گا؟ اور اگر ہمیشہ ہی اس کو اپنے پیٹ میں رکھنا ہے تو ٹھیک ورنا اگر نکالوگے تو کس کو پتا کہ اس میں سےفرق کیسے کروگے کہ یہ مرغی ہے، یہ چائول ہے اور یہ کباب ہے ۔
اب اگلی بھار ی آپ کو موقع نصیب ہو ، مجھے امید ہے بہت جلد تو یہ ضرور سو چئے گا، کہ یہ کوئی انسانوں والا عمل ہے ؟
کیااگر میں نے 2،3 بوٹیاں اضافی نہیں کھاہیں تو میں مر جائونگا ؟ یا اگر ذیادہ کھائونگا تو ذیادہ سال تک ذندہ رہونگا۔
مگر اگر اس ٹائم سوچنے میں لگ گئے تو ذمہ دار میں نہیں ہوں۔
جس قوم کو ابھی تک کھانا کھانے، لائن میں کھڑا ہونے میں مسلہ پیش آتا ہو، جس کے مسجد میں جوتے اور واٹر کولر سے گلاس ، واشروم سے لوٹے چوری ہونے کا خطرہ ہو ، وہ قوم پھر اپنے سیاستدانوں ،لیڈروں کی چوریوں کا ذکر کرتی ہے تو دل کہتا یہ شعر کہدوں
تمہارے ہاتھ سے محفوظ نہیں مسجد سے جوتے ، اور واشروم کے لوٹے
اور پھر تم کہتے ہو غدار ہے وہ جس نے ملک و قوم کے اثاثے لوٹے