سکول کے دوران بہت دفع ایسے دن بھی آئے کہ استانی صاحبہ کو پڑھانے کا بالکل بھی دل نہیں کیا اور نہ ہی ہمیشہ کی طرح ہمارا کلاس میں پڑھنے کادل کرتا، تو اس دن عموماََ ہم استانی صاحبہ کے دوپٹے پر بنے یوئے گل کے ڈیزاین سے لیکر ان کے نوکیا تینتس دس موبائل پر بجھنے والی شاندار رنگ ٹون کی تعریف اور ان پر مسکالز موصول ہونے کی صورت میں ملنے والی پریشانی سے لیکر ہر انتہائی ضروری ٹاپک پر اس قدر استقلا ل اور شاہستگی سے بحث و مباحثہ کرتے کہ استانی صاحبہ کی توجہ ایک سکینڈ کے لئے بھی کلاس کو پڑھانے جیسے انتہاہی غیر ضروری موضوع پر نہیں جاتی۔
اور تھوڑی دیر میں اگر یہ محصوص ہوتا کہ اب شاید استانی صاحبہ کی سوچ خدانخواسطہ ہم کو پڑھائی کی طرف متوجہ کرنے کا سوچ رہی ہے ، تو پھر کوئی نہ کوئی شاطر طالبعلم استانی صاحبہ کے یادروں کے جھروکوں سے کوئی سوال لیکر سامنے رکھ دیتا، مثال کے طور پر “ باجی آپ نے اس دن بتایا تھا کہ آپ ایک دفعہ لاہور گئی تھیں، وہ زرا بتائیں۔۔” تو استانی صاحبہ پہلے یہ سن کر خوش ہوتیں کہ بچوں کو پتا ہے میں ایک دفع لاہور بھی گئی ہوں، اور اس کے بعد باجی اپنی خوبصورت و لازاول داستان میں کھو جاتیں اور سفر کی روداد سناتے سناتے چھٹی کی گھنٹی آ بھجتی ۔۔۔۔
میں بڑھا ہوتا گیا، سکول سے دوسرے سکول، کالج سے یونیورسٹی تک پہنچا اور ہر جگہ یہ ترکیب کامیاب ہوتے دیکھی اور، آپ میں سے بھی یقینی طور پر بہت سے اسی کام میں ماہر ہونگےیا ایسے کام ہوتے دیکھیے ہونگے۔
مجھے اب یہ محصوس ہوتا یہ فارمولہ صرف سکول کے کمروں تک محدود نہیں رہا۔ بلکہ کوئی ہمارے ملک کے ساتھ بھی یہ ہی کھیل کھیل رہا ہے، کسی خاص موضوع پر توجہ دینے کے لئے کسی کے پاس کوئی موقع نہیں ہر دن نیا کھیل نئے کھلاڑی اور پرانے تماشائی، کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کے بڑھتی ہوئی معاشی نا ہمورایوں، صحت کے مسائل، تعلیمی نظام کی زبو حالی، ملک کے بین القوامی تعلقات، کوئی وژن کوئی ، کوئی قومی منصوبہ سازی جیسےعنوانات پر بات کرے۔
المیہ یہاں تک آ پہنچا کہ ہمارہ نظام ملکی و عالمی سطح پر ایسے کوئی افراد پیدا نہ کر سکا کہ جن کی عالمی شہرت کو دنیا مانتی ہو، چاہے وہ میدان تعلیم کا ہو، طب کا میدان ہو یا کھیل کا میدان ۔
اب یہ اوپر والی لائن پڑھ کہ آپ بھی اس شاطر شاگر کی طرح کوئی پرانی داستان کھول بیٹھینگے کہ وہ تمہیں یاد نہیں ہم نے ورلڈ کپ جیتا تھا، یہ کیا تھا، وہ کیا تھا، دوستو ، ملک اور قومیں حال اور مسقتبل کے حصاب سے جانی پہچانی جاتی ہیں ، ماضی میں انہوں نے کیا تیر گاڑھے تھے وہ فضول بحث ہے ہمارا حال کیا ہے آپ مجھے سے زیادہ واقف ہونگے۔
جب تک کسی ریاست یا ملک کا کوئی وژن نہیں ہوگا،تب تک جو ہمارے ساتھ ہوتا آرہا ہے وہ ہوتا رہیگا اور روزانہ کی بنیاد پر یہ موضوعات ذیر بحث ہونگے کہ تھپڑ مارنا غلط تھا یا صھیح تھا، یہ چائے والا زیادہ اچھا یا وہ موچی والا۔ اور پھر چھٹی کے گھنٹی بجھے گی۔۔یا شاید وہ بج چکی ہےاور آ پ کو محصوص ہو گا کہ میں نے تو اپنا وقت ضائع کردیا۔
لہاظہ آپ اپنا وقت ان شاطر بچوں کی چالاکی پر ضائع مت کریں ، ٹیچر کی توجہ پڑھانے کی طرف کریں یا اس سے بہتر یہ کہ سیلف سٹدی کریں اور آگے بڑھیں چونکہ شاطر بچے عموماََ کسی بڑھی شخصیت کے بچے ہوتے ہیں اور وہ کہں نہ کہیں سے اپناے ابا کی شاطری پر اپنی زندگی عیاشی میں گزارلینگے اور آپ کسی غریب طالبعلم کی طرح زندگی کے کمرہ امتحان میں ناخن چباتے رہ جاہینگے۔
ایسا نہ ہو آپ کا بھی نتیجہ ایسا ہی نکلے اور آپ بھی باہر نکل کر چورن کی دوکان کھول بیٹھیں اور غیرضروری موضوعات میں لوگوں کو الجھا کر اپنی چورن بیجھنے کا کاروبار کرنے لگ جاہیں۔
“لازم نہیں اب ہر اس موضوع گفتگو کا حصہ بنیں جس کی آ پو دعوت دی گئی ہے”