امریکہ میں قیام کے دوران کوشش کی کہ ہر جمعہ کسی نئی مسجد میں جا کے نماز پڑھی جائے تاکہ مختلف آوازوں کو سننے کا موقع ملے، جمعے کو چونکہ آفس جانے کے بجائے گھر سے کام کرنے کی اجازت تھی تو یہ کام قدرے آسان تھا۔
دونوں عیدیں بھی وہیں گزریں تو ان خطبات کو بھی سنسنے کا موقع ملا، اوراکثرخطبات کا لبِ لباب یہ تھا کہ مسلمانوں کی زوال پزیری کو روکنے کے لئے کیا اقدامات کئے جایئں اورغیر مسلم خواتین و حضرات میں اسلام کے حقیقی پیغام کو پہنچانے کے لئے تگ و دو کیسے جائے۔ نیویارک سے ہٹ کرکچھ اور شہروں میں بھی باتیں سننے کا موقع ملا اور ساتھیوں نے یہ بتایا کے ان مساجد میں میں اکثر امام حضرات نے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے یا اس کے طالبعلم ہیں۔
شاید یہ ہی وجہ تھی ہر اتوار کو باقائدگی سے غیر مسلم حضرات کے لئےان مساجد میں اسلام کے بارے میں تعرفی پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
اور چھ مہینے بعد میں اپنے ہی ملک کی ایک مسجد میں جمعہ نماز پڑھ کے آیا ہوں جس میں دو موضوعات پر تفصیلی بات ہوئی ایک موضوع تھا کے اگر پانچے ٹخنے سے نیچے ہوئےتو آپ کی آخری منزل کیا ہوگی اور دوسرا موضوع ربیع الول کے مہینے کے شروع ہونے کے حوالے سے تھا جس میں آنے والے کچھ دنوں کے دوران ہونے والی تقریبات کے منتظمین اور شرکاٗ کے ایمان کی جانچ پڑتال کی جارہی تھی۔
ابھی خطبہ ختم ہی ہوا تھا اور میں پانچے اوپر کرتے ہوئے صف بندی میں مصروفِ عمل تھا کے ایک جاننے والے صاحب دیکھ کر مسکرائے پھر زبردستی اپنی رومال میرے ہاتھ میں تھامتے ہوئے بولے یہ امریکہ کی مسجد نہیں ہے، سر ڈھانپ کر نماز پڑھو۔۔