بلوچستان کے ضلع لسبیلہ جیسے پسماندہ علاقے سے نیویارک جیسے عالمی شہر تک کا سفر میرے لئے نیا نہیں لیکن اس شہر کے اندر جو بات ہے وہ شاید ہی میں نے لندن، برلن سمیت کسی اور شہر میں پائی ہو، اس شہر کی رونق ،چال چلن آدمی کو تھامے رکھتی ہے۔ محظوظ کرتی رہتی ہے۔
میں نے تقریباََ ایک سال کے عرصے کی رہائش کے دوران اس شہر کو امریکیوں کا نہیں بلکہ دنیاوالوں کا شہر پایا،مختلف رنگ، نسل، مذہب، قوم و زبان کے ساتھ ہر نظر آنے والا شخص دوسرےجیسا ہی دکھتا ہے لیکن مخلتف ہے۔میرے خیال میں لوگوں کو جو چیز اس شہر میں جوڑے رکھتی ہے وہ “تلاش” ہے،کوئی یہاں ایک بہتر کل کی تلاش ہے تو کوئی یہاں مواقع کی تلاش میں ہے، کوئی سکون کی تلاش میں تو کوئی پیچھے رہ جانے والوں کے لئے ایک بہتر آج کےتلاش میں ہے۔ میں بھی ایک “تلاش” کے چکر میں یہاں تک آ پہنچا میری تلاش تھی جاننا، سیکھنا اور یہ سمجنا کہ وہ کیا چیز ہے جو قوموں کو قوموں سے مخلتف بناتی ہے میری تلاش ابھی جاری ہے لیکن یہ میرا اس شہر میں آخری مہینہ ہے۔
اس شہر کی چکاچوند روشنیوں کا مرکز” ٹائم سکوائر” ہے، یہ شہر ایونیوز اور اسٹریٹس میں تقسیم ہے، ٹائم سکوائر، نیویارک کے “صدر” کا ریگل چوک ہے۔ یہ ٹھیڑ زکے لئے مشہور براڈوےایونیو اور سینونتھ ایونیو کا سنگم ہے۔ اس کی روشنیاں آنکھوں اور خوابوں کو روشن کرتی ہیں۔ آنے والوں کی حیرانگی، جانے والوں کی مسکراہٹیں اور حسرتیں، دوستوں گروہ کا جوڑوں کا ، چھوٹے چھوٹے خاندانوں کاروشنیوں کے ساتھ تصویریں کھنچواتے ہوئے یہ عہد کہ یہ روشنی ہمارے رشتوں میں ہمیشہ روشن یادوں کی طرح رہے دیکھنا سب پر کشش لگتا ہے۔
ٹائم سکوائر کو دنیا بھر میں پیدل چلنے والوں کے لئےمصروف ترین رستہ بھی کہا جاتا ہے،عام دنوں مین روزانہ تین لاکھ کے قریب لوگ پیدل گزرتے ہیں اورروزانہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب لوگ کاروں بسوں میں سوار ہوئے یہ روشنی کا دریا پار کرتے ہیں اور خاص دنوں میں یہ تعداد پانچ لاکھ لوگ روزانہ کے حصاب تک جہاں پہنچتی ہے۔
اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا ایک جگہ سے روزانہ کی بنیاد پر گزرنا، کسی بھی پراڈکٹ کے اشتہار کے لئے ایک بہترین جگہ ہے اسی وجہ سے ان طویل وقامت عمارتوں پر لگی ہوئی سکرینز دنیا کی بڑی بڑی کمنپنیوں کے نت نئے پراڈکٹس کے اشتہارات سے جگمگا تی رہتی ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ ان سکرینز پر اشتہار دینے کی قیمت پاکستانی روپے کے حصاب سے کروڑوں میں ہے۔
ٹائم سکوائرکے ایک جانب جہاں بڑی بڑے شاپنگ سٹورز، ریسٹورینٹس ہیں تو دوسری طرف براڈوے کے مشہور تھیٹرز ہیں، جہاں ہونے ڈرامے کئی سالوں سے جاری ہیں اور آرٹ اور ڈرامہ کے شوقین افراد کو کئی دن قبل اور بعض دفعہ کئ مہینے قبل مشہور شوز کی بککنگ کروانی پڑتی ہے اور ان شوز کی قمیت آٹھ ہزار پاکسستانی روپے سے لیکر لاکھ تک جہا پہنچتی ہے۔ لیکن اعلی پائے کے فنکاروں کو براراست پرفارم کرتے دیکھنے کا مزہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
ٹائم سکوائر کی کی وسطی بلڈنگ میں ایک رنگین روشن بال نصب ہے جس پر فلحال 2017لکھا ہوا یہ ہر سالِ نو پر بدلتی ہے اور نئےآنے والے سال کے نام سے منصوب کی جاتی ہے اس تقریب کو دیکھنے کے لئے لاکھو ں لوگ جمع ہوتے ہئں اور نئے سال کو یادگار بناتے ہیں۔
1904سے پہلے یہ جگہ لانگ ایکر سکوائر کے نام سے مشہور تھی لیکن لیکن جب اسی سال مشہور امریکی پبلشر ادراہ نیویارک ٹائمز نے اپنا صدر دفتر یہاں منتقل کیا تو اس جگہ کا نام بھی اسی کے ساتھ جڑ کر ٹائم سکوائر میں بدل گیا، حتاکہ اس کے بعد پبلشر کا دفترکہیں اور منتقل ہوتا گیا لیکن نام نے اس جگہ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
دنیا بھر سے امریکہ آنے والے لاکھوں سیاحوں کے لئے نیویارک آئے بغیر شاید ہی امریکہ کا دورہ پورا ہو تا ہو اور نیویارک آکر ٹائم سکوائر تک نہیں آئےتو ایسا ہی جیسے آپ دستر خوان پر بریانی چھوڑ کر صرف سلاد کھاکےچل دئے۔
میرا دفتر چونکہ کچھ گلیوں کے فاصلے پر ہے تو عموماََ دفتر سے چھٹی کے بعد کافی لیکر ٹائم سکوائر کی ان لال رنگ کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاتا ہوں اور ہنستے مسکراہتے، حیرت میں متبلا لوگوں کو دیکھتا ہوں،جن میں سے کوئی شارٹ اسکرٹ میں، تو کوئی حجاب میں ، کسی کے سر پر پگ تو کسی کے سر پر چھوٹی کالے رنگ کی ٹوپی پہنے دیکھتا ہوں تو ناز خیالوی صاحب کا یہ کلام خان کی صاحب کی آواز میں میرے کانوں میں گھونجنتے ہی سوال چھوڑے چلا جاتا ہے۔۔
کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا کبھی وہاں پہنچا
تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا
غریب مٹ گئے ، پامال ہو گئے لیکن
کسی تلک نہ تیرا آج تک نشاں پہنچا
ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو