گزشتہ دنوں جب یہ خبریں آنے لگیں کہ بلوچستان حکومت صوبے میں اساتذہ کی خالی اسامیوں کے لئے درخواستیں وصول کرنے جارہی ہے تو بہت سارے ڈگری ہولڈرز، بے روزگار نوجوانوں ،سیاسی ورکروں کی امیدیں جاگ اٹھیں،بے روزگار اس لئے خوش ہوئے کہ روزگار کی کوئی موقع تو میسر آیا اور سیاسی ورکر اس لئے خوش ہوئے کہ کم از کم کچھ دن ان کی آو بگھت ہوگی لوگ کہنگے سر آپ پھلانے ایم پی اے کو جانتے ہیں یا ان صاھب کو جانتے ہیں منسٹر صاھب کو جانتے ہیں ،تو ہماری تھوڑی سفارش ہی کردیں۔
لیکن پھر کیا ہوا۔۔۔۔
سب کی خواہشات پر پانی پھر گیا اور حکومت نے اشتہار کے ساتھ یہ شرط بھی لگا دی کے ان ہزاروں اسامیوں کے لئے ٹیست این ٹی ایس یعنی نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے ادارے کے تحت لیا جائیگا جس کا امتحانی نظام قدرے شفافیت کے عمل سے گزرتا ہے۔
خیر اب جو ہوگیا سو تو ہو گیا۔۔۔۔
اب ذرا ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ٹیسٹ کیسے پاس ہوگا۔ آپ نے ابھی تک ایک ہزار روپے فیس جمع کر ا کے یقیناََ ایک سے زاہد اسامیوں کے لئے کسی اور سے فارم پر کروا کر کسی سترہ گریڈ کے سرکاری آفیسر کو منت سماجت کرکے اپنے فارمزتصدیق کرواکے متعلقہ دفاتر میں جمع کرادئے ہونگے۔
سب امید واروں نے تقریباََؒ ایسا ہی کیا ہوگا
لیکن اب ایسا کیا ہوگا جس سے یہ ٹیسٹ پاس ہوجائے ؟
بہت سارے دوستوں کو آپنے یہ کہتے ہوا سنا ہوگا، چھوڑو یا راتنے امتحان پاس کئے ہیں ایک یہ بھی پاس کردینگے،یا میں نے ایک سفارش پکڑی ہےجو بڑی تگڑی تو فکر نہ کر، بس تکا لگ جائیگا،میں توہمیشہ تکے مارتا ہوں ، بس تھوڑے بہت پیسے جمع کیے ہیں پاس ہوجایئگا، یا یہ بلوچستا ن ہے سب چلتا ہے۔
تو یقین مانیئے ان میں سے اکثریت جھوٹ بول کر اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کر رہی ہوگی۔
بہت سارے لوگوں کو یہ اعتراض بھی یقینی طور پر ہوا ہوگا کے آخر ہماری بھاری میں این ٹی ایس کیوں؟
خیر جو ہوا اس ہوا، مگر یہ ٹیسٹ کیسے پاس ہوگا۔۔۔؟
آپ کہ رہیے ہونگے، قیصر بھائی آپ سیدھے سے ترقیب بتائیں یہ ٹیسٹ پاس کیسے ہوگا۔۔
تو ترقیب یہ ہے بھائی کہ ان ہزاروں امیدواروں میں سے صرف اکثریت یه ٹیسٹ فیل هوجائیگی، کچھ شاید بہت کم لوگ ہی یہ ٹیسٹ پاس کر پائینگے۔۔۔
نہیں نہیں میں قطعاََ مایوسی نہیں پھیلارہا ،اگر آپ نے محنت کی ہے تو آپ انشا اللہ کامیاب ہونگے۔
اور اگر کسی نے نہیں کئ تو امتحان کے دن کرسی پر جب آپ نشست فرماہونگے تو آپ کی سوچ میں وہ لوگ ضرور آئینگے جو آپ کو سکولز سے لیکر کالج تک نقل کروا کے پاس کرواتے رہے وہ چپڑاسی بھی یاد آئیگا جو پانی کے بھانے آپ کے نقل کی پڑھیا لاتا رہتا تھا، وہ ماسٹر بھی جو آپ کو بتا تھا کہ بیٹا یہ سوال آئینگے ان کی دو،دو فوٹو کاپیاں کرواکے ایک شلوار کی جیب میں اور دوسری موذوں میں چھپا کر لے جانا تا کہ اگر ایک پکڑی جائے تو دوسری کام آئے، اور آپ کو وہ ہوٹل کی چارپائی یا ٹیبل بھی یاد آئیگا جس پر آ پنے امتحانی مرکز کے سپرہنڈینٹ کو کڑھائی کھلائی تھی تاکہ وہ امتحان میں آ پ پر خصوصی نظر کرم کرے،شاید آپ کو سرکاری آفیسر بھی یاد آئے جو ہال میں نقل بند کروانے آیا تو آپنے اس کے خلاف ہڑتا ل کردی تھی، یا ہوسکتا ہے آپ کو وہ آپ کی تنظیم کے ساتھی بھی یاد آئیں جو ہال میں یہ دھمکی دے کر گئے تو اگر کسی نے ہمارے بندوں سے نقل پکڑی تو ہم اس دیکھ لینگے۔
یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ سوچیں کہ امتحان میں جانے سے پہلے ہم اپنی شلوار پر جتنے ور لگاتے تھے یا امتحان دینے کے لئے جاتے ہوئے موٹر سائکل کو پمپ کرتے تھے اگر اس سے کم بہت کم محنت بھی کرتے تو آج یقینی طور پر یہ صورتحال نہ دیکھنی پڑھتی۔
کہتے ہیں جس معاشرے میں سب کچھ چلتا ہے پھر وہ معاشرہ بہت کم چلتا ہے،تو وقت اب بھی گیا نہیں تھوڑی سی محنت کریں یہ امتحان بھی پاس ہوگا، اور اس سے اچھا کام یہ ہوگا کہ آپ اپنی آنے والی نسلو ں کو نقل کی اس لعنت سے محفوظ رکھیں چاہیں وہ آپ کے بھائی ہوں یا بہنیں اگر وہ بھی اس نقل کی دوڑ میں لگ گئے تو آپ زندگی بھر دوسروں سے امیدیں لگا کے بھیٹھے ہونگے کہ کوئی آپکی سفارش کرے یا کوئی اور جگھاڑ ہو ۔۔اب یہ سائنسی دورہے جگھاڑ کی عمر پوری ہو چکی ہے آپ نہیں بدلینگے تو یہ دنیاآپ کو مزید پیچھے دھکیل دیگی۔
نقل ایک لعنت ہے اس سے چھٹکارہ پائیں۔
ان دوستوں سے معذرت جن کی دل آزاری ہوئی اور جن کو تھوڑی بہت شرم محسوس ہوئی ان کو مبارکباد۔