نیویارک میں ٹھنڈ بڑھ گئی ہے ، آج دفتر بھی نہیں گیا، گھر بیٹھ کر کام کی نیت کی مگر وہ بھی نہیں ہو پارہا، میرا دل کوئٹہ واقع کی وجہ سے بے چین ہے، خوفزدہ ہے، دہشت ذدہ ہے۔
ہر ٹھوڑی دیر میں ایک میسج آتا کبھی بتایا جارہا ہے کہ واقعہ میں ہلاک ہونے والوں میں سے نصف تعداد مکران ڈویژن کے نوجوانوں کی ہے، کبھی میسج آتا ہے کہ آ پ کے گائوں کے نوجوان کو بھی شدید دعائوں کی ضرورت ہے۔
پولیس میں کون جاتا ہے ؟ بلوچستان میں اکثریت ان غریب خاندانوں کے نوجوان جاتے ہیں، جو بڑھی محنت و مشقت کرنے کے بعد میٹرک اور ایف،اے پاس کرپاتے ہیں اور پولیس ہی کو ایسا ادارہ سمجھا جاتا ہے جہاں پر ان کو سرکاری نوکری ملنے کا چانس ہو اور اس کا فیصلہ ان کی قدو قامت اور دوڑکی رفتا کرتی ہے۔
آدھی تعداد مکران ڈویژن سے تھی، وہ مکران جو پچھلے دس سالوں میں شدید قسم کے انتشہار اور دہشت سے گزر رہا ہے، جہاں خاموشی راج کرتی ہے، آدھے لوگ اپنی سیاسیت اور نظریے کی بنیاد پر مارو اور پھینکو کی پالیسی کا شکار ہوگئے اور آدھے اپنی وفاداریوں کی پاسداری میں مارے گئے۔
جو بقیہ رہے گئے وہ وطن چھوڑ گئےاور کچھ نے خاموشی اختیار کی اور کسی نہ کسی طرح چھوٹی موٹی نوکری یا روزگار کی تلاش میں زندگی گزارنے لگے۔
یقینی طور پولیس کی نوکری میں بھی آنے والوں اکژریت انہی لوگوں کی ہوگی، جن کی یہ خوش فہمی کہ انہوں نے فوراََ سے آگے جانے والی سیڑھی کا انتخاب بھی نہیں کیا اور سانپ کے ڈھنگ سے بھی بچ گئے، بس اب قدم بقدم آگے بڑھینگے اور زندگی کا پہیا آگے کھینچھےگے اپنے لیے اپنے گھر والوں کے لیے۔
یہ ساٹھ کے قریب نوجوان جو اب باقائدہ سے اپنی سرکاری نوکری جوائن کرنے والے تھے، جن کے خواب ہونگے، زیادہ بڑھے تو نہیں لیکن یقینی طور پر چھوٹےموٹے سے خواب، جیسے پہلی تنخوا سے ماں کو پیسے دینا کا خواب ، گھر کی چھت پکی کرا نے خواب، یا ابا کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا خواب، یا پھر منگنی تو کم از کم کر ہی لونگا، اور اسی طرح کے بہت سارے غریبوں کے چھوٹے موٹے خواب، لیکن سب کو سب کی بظر لگ گئی، زندگی بدلتے بدلتے رہے گئی۔
مجھے اس دن کا ڈر ہے، جس دن مجھے فون آیئگا یا میسیج آیئگا کہ آپ کی بہن جس سرداربہادر خان یونیورسٹی میں پڑھتی ہے اس پر دوبارہ حملہ ہوگیا ہے، یا آپ کےڈاکٹر کزن جس کوئٹہ کی سرکاری ہاسپٹل میں پریکٹس کر رہے ہیں۔ اس پر حملہ ہوگیا ہے، میرے عزیز دوست جو اس شہر میں ہیں جواپنی اور دوسروں کی زندگی بدلنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں وہ کسی دہشت گردی کے حملے کا شکار ہیں۔
یا پھر شاید میں خود جب میں سات مہینے بعد امریکہ سے چلا جائوںگا اپنے ملک تو کسی دن کسی لیاقت بازار کی بھری مارکیٹ میں اس دہشت کا شکار ہوجائوں۔
پہلے میں ایسا نہیں سوچتا تھا ، لیکن اب جب میں نے کفن میں لپٹےاپنے ان نوجوان کو خوابوں اور امیدوں سمیت دفن ہوتے دیکھا ہے تو یہوں محصوس ہوا کہ انہوں نے بھی خواب دل میں رکھ کےیہ تھوڑی سوچا ہوگا کہ ان کے ساتھ یہ ہونے جارہا ہے۔اس لیے میں اب ایک “ریلسٹک اپروچ” کے تحت اس عمل کو سوچ چکا ہوں، اب میں زیادہ دیر بہادر بننے کی ایکٹنگ نہیں کر سکتا۔
بس آ پ سے گزارش ہے کہ جب ایسی کوئی کاروائی ہو تو خداراہ یہ مت کہیگا کہ اس نے وطن کے لئے قربانی دی ہے،یایہ واقع فلاں ملک کی فلاں فلاں ایجنسی نے کروایا ہے، یا ہمیں پہلے ہی اطلاع تھی، یا اس سیاستدان کی اس تحریک کو ناکام بنانے کے لئے کیا گیا ہے۔
بس یہ مان لیجئگا کہ یہ ایک غیر زمہ دار ریاست کے غیرسنجیدہ اداروں کے بزدل اور نااہل لوگوں کی اور پوری قوم کی اجتماعی ناکامی ہے۔
یاد رکھیےگا کہ جینا ہر حال میں سب سے اہم ہے، وطن کے لئے مت مریں، غیرت کی خاطر مت مریں، کسی بھی صورت میں کسی بھی چیز کے لیے اپنی جان مت گنواہیگا، کیونکہ زندگی کا یہی پیغام ہے۔