بلند و بالا عمارتوں میں مشینوں کی طرح رواں دواں ہزاروں انسانوں کے درمیان پھنسے ہوئےشخص کو دعوتِ سفر ملےکےآو سفر پر چلتے ہیں۔ میں ڈاکٹر زیشان صاحب کی محبت کو دیکھ کر انکار نہیں کر سکا اور اگلے دن نیویارک سے پہلی دستیاب فلائٹ لی اور امریکی ریاست شمالی کیرولینا کے شہر کیری آہنپنچا۔
یہاں پہنچ کر علم ہوا کے ہماری منزل (Smoky Mountains) سموکی مائون ٹینز ہے۔ جہاں ہم دو دن گزارینگے۔ سچ پوچھیں تو مجھے شاید ہی کوئی فکر ہو کہ کہاں جانا ہےچونکہ مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ ادب سے محبت رکھنے والے حضرات کے ساتھ سفر کا موقع مل رہا ہے، اور سب سے کم عمر ہونے کے ناطے اپنے سے زیادہ تجربہ کار لوگوں سے سیکھنے کا بھی اس سے اچھا موقع شاید ہی مل سکے۔
شام چار بجے کے قریب کیری سے اپنی منزل سموکی مائوئن ٹینز کی طرف سفر شروع کیا، ساڑھے چار سے پانچ گھنٹےبعد جب ہم اپنی منزل پر پہنچے تو اندھیرا قدرے زیاد تھا لہاظہ گاڑی کی بتیوں کی روشنیوں کے علاہ کوئی خاص منظر نہ نظر نہ آسکا البتہ یہ محصوص ہورہا تھا کہ آس پاس پہاڑ ہیں اور کیری کے مقابلے میں ٹھنڈ زیاد ہے۔ اب چونکہ رات ہوچکی ہے لہاظہ میں باہر کی منظر کشی کے لئے صبح کا انتظار کرتا ہوں۔
سموکی مائونٹینز کا پہاڑی سلسلہ امریکہ کی جنوب مشرقی ریاست ٹینسی سے لیکر شمالی کیرولینا کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ اس پہاڑی حصے کی منفرد بات یہاں پر “گریٹ سموکی مائوٹینز نیشنل پارک“ ہے جو اس پہاڑی سلسلے کے اکثریتی حصے پر پھیلا ہوا ہے۔ 1934میں بنا یا گیا یہ پارک امریکا میں سیر کیا جانے والا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جہاں سالانہ نو ملین لوگ آتے ہیں۔
اس پہاڑی سلسلے کی “سموکی “ نام سے نسبت اس علاقے میں پڑنے والی شبنم سے ہے جو عموماََ اس پہاڑی سلسلے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جو اس کے حسن میں بھر پور اضافہ کرتی ہے۔
صبح جب فجر نماز کے بعد باہر نکلے تو ہلکی سی روشنی میں سبز اور پیلے پتوں میں لپٹے لمبے قد کے درخت اور اپنے ارد گرد کے خوبصورت ماحول کی گوائی دے رہے تھے۔
خاموشی ایسی کہ گویا محصوس ہونے لگا کہ ہر چیز ہم سے بات کرنے کے انتظار میں ہے، نزدیک بہتے ہوئے پانی کی آوزیں اس دھن میں مزید اضافہ کر رہی تھی۔
آبادی نہ ہونے کے برابر اس علاقے میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد گاڑی گزرتی تو یو ں محسوس ہوتا کہ قدرت کی اس دلکش سُر اور تال کی دھن میں کوئی اناڑی زبردستی چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے۔
اس علاقے کی خوبصورتی کو دوبالا ان پہاڑوں اور درختوں کے درمیاں بنائی گئی خوبصورت سڑکوں نے کیا ہے، اگر آپ ان رستوں پر گاڑی چلانے کا موقع پاتے ہیں تو یقینی طور پر یہ آپ کے لئے زندگی بھر کے ڈرایئونگ تجربات میں سے بہترین کی فہرست میں شامل رہیگا ، جو آپ کو ایک فلمی احساس میں لے جاہیگا، جہاں آپ ایک طرف تو خوبصورت پہاڑوں پر پیلے زیورات اوڑھے درخت دیکھیں گے وہیں دوسری طرفا بہتا ہوا پانی آپ کو ایک الگ احساس میں لے جایئگا۔
اس سارے سفر کی خوبصور ت بات اس پارک میں موجود ریل گاڑی کا نظام ہے جو آنے والوں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ اس خوبصورت ریل گاڑی میں بیٹھ کر قدرت کے ان شاہکار نظاروں سے بھر پور علاقے کو نزدیک سے دیکھ سکیں ۔
ہم اگلے دن جب بریسون سٹی (Bryson City ) کے مقام سے پہلے ہی سے بک کرائی گی ریل گاڑی میں بیٹھے تو ہمیں بتا یا گیا کہ یہ اس سیزن کا آخری سفر ہوگا ، یہ ریل گاڑی عموماََ مئی سے لیکر اکتومبر کے آخر تک آنے والوں کے لئے کھلی رہتی ۔
امریکہ میں رہنے والوں اور سب وے اور تیز میٹرو ٹرینز میں سفر کرنے والوں کے لئے یہ یقینی طور پر ایک پرانی منفرد زمانے کی ٹرین تھی مگر میرے لئے اس کے رشتے ابھی بھی کسی نہ کسی طرح پاکستان ریلوے کی ریل گاڑیوں سے مشابہت رکھتے تھے۔
بریسون سٹی سے نکلنے والی یہ ریل گاڑی ساڑھے چار گھنٹے کی مسافت میں ننتھالہ ندی اور اس کے ارد گرد کے علاقے میں چالیس مائلز کا سفر تہے کرتی ہے۔ریل گاڑی کو عام ریل گاڑیوں کی طرح مختلف ڈبوں اور کلاسز میں تقیسم کیا گیاہے ، اس تقسیم کا باقائدہ فرق اس کی قیمتوں میں بھی نظر آتا ہے جو پچیس ڈالر فی بندے سے لیکر ایک سو ڈالر فی بندہ تک جا پہنچتی ہے۔ اس قیمت میں آپ کو ریل گاڑی کے اندر طعام بزریعہ خدمت گار کی سہولیات سے لیکر واشروم تک سب دستیا ب ہیں۔
ریل گاڑی میں بیٹھے ہوئے مسافر وں کی اکثریت بڑھی عمر کے لوگوں کی تھی جو شاید یہ بتا رہی تھی کے تیز دوڑتے امریکہ میں نوجوان نسل کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ٹیکنالوجی سے دور کریں اور قدرت کے قریب ہوجائیں۔ ریل گاڑی کے سیٹی بجنے کے بعد سے ہر منظر دل کش ہے اور دیکھنے والے کو اپنے اثر میں گہر لیتا ہے۔
دو، ڈھائی گھنٹے کی مسافت کے بعد ریل گاڑی ایک خوبصور جگہ پر رک جاتی ہے اور سفر کرنے والوں کو موقع فراہم کرتی ہے کہ ایک گھنٹے تک گاڑی سے اتریں اور خوبصور ت نظاروں کو مزید قریب سے دیکھیں۔ بہتے ہوئے پانی، لوگوں کی مسکراہٹیں، خزاں کے پیلے پتے جب زمین پر گرتے ہیں تو نہ جانے کس دنیا میں گم کردیتے ہیں، ایسی دنیا جو پر امن ہے، خوبصورت ہے۔
سفر ایک ایسا احساس ہے جس میں آپ سارے غم سارے دکھ تقریباََ بھول ہی جاتے ہیں، شاید اسی لیے ہی کہتے ہیں کہ سفر انسان کو انسان سے ملنے کا موقع فراہم کرتا ہے، کہ وہ اپنے آپ کو جان سکے پہچان سکے، سوال کر سکے اپنے آپ کو جواب دہ سکے، اپنے آپ کو معا ف کر سکے۔
میرا یہ سفر ابھی ختم نہیں میں ابھی ریل گاڑی میں بیٹھ کر واپس ہورہا ہوں، اور یہ امید لگا رہا ہوں کہ ایک دن ایسا بھی آہیگا کہ ہمارے ملک کی خوبصورتی کو بلا خطر و خوف دیکھنے کا موقع ملے اور گوادرسے لیکر گلگلت تک ہم بھی زمین کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لئے دنیا بھر کے سیاحوں کو دعوت دے سکیں گے، کہ آو دیکھو زمینیں تو سب ایک جیسی ہیں ، درخت تو سب ایک جیسے ہیں، دریا بھی ایک جیسے ہیں، یہ بس انسان ہی تو ہیں جو شرارت ہی شرارت میں زمین کو دوسرے انسانوں کے لئے تنگ کر دیتے ہیں۔