عملی اقدامات،بندر بادشاہ اور بلوچستان۔

خبر ہے کہ “کوئٹہ میں یونیورسٹیز کو ممکنہ حملے کی دھمکیوں کی وجہ سے بند کردگیا ہے، کچھ دن پہلے آئ ٹی یونیور سٹی  اور آج سردار بہادرخان یونیورسٹی برائے خواتین کو بند کردیا گیا ہے”
بلوچستان کے لوگ معصوم ہیں سوال نہیں کرتے، جو معصوم نہیں وہ ممکنہ طور پر ایجنٹ بن جاتے ہیں، باقی جو نہ معصوم ہیں نہ سوال کرتے ہیں وہ حکمرانی والے کسیٹیوم میں اسٹیج پر ہیں۔
میں چونکہ ان میں سے کسی کیٹیگری میں نہیں آتا اور خیال یہ ہی کہ آپ بھی نہیں ہونگے، تو لہاظہ نہ میں آ پ سے  پوچھ رہا ہوں نہیں خدا نخواسطہ کسی سے سوال کر نے کی خطا کرسکتا ہوں،  بلکہ اپنے آپ سے بات کر رہا ہوں (سرگوشی میں)۔
 کہ اگر ہم نے سب کی کمر توڑ دی ہے تو یہ کونسا حکیم ہے جو ان کا اتنا جلدی علاج کرلیتا ہے،یہ کونسی سلاجیت ان کو کھلادیتے ہیں کہ یہ صحت یاب ہوکر پنجرے میں موجود پہلے سے ڈھرے ہوئے سہمے ہوئے اد مرے ہوئوں کو ڈراتا ہے۔ پنجرے کے رکھوالے اپنے آپ کو لوہے کے بند ڈبے میں  رکھ کر آواز لگا کر کہرہے ہیں کہ بے فکر رہو، ہم عملی اقدامات کر رہے ہیں۔ بے فکر رہو۔۔۔۔۔
عملی اقدامات سے سے ایک کہانی یاد آئی۔
کہتے ہین شیر کی غیر موجودگی میں جنگل میں لومڑی کو یہ خیال آیا کہ تھوڑا ٴشگل لگاتے ہیں شیر ویسے بھی نہیں ہے تو کوئی نیا بادشاہ کیوں نہ بنا لیا جائے، لومڑی اپنا یہ خیال لیکر محترم بندر کے پاس گئی جس کو کافی عرصے سے توجہ کی طلب تھی ، کہ کوئی مجھے دیکھے، مجھے پوچھے اور میرے گن گائے۔۔۔
لومڑی نے انتہائی ادب اور احترام سے اپنا کیس بیان کرنے لگی 
کہ محترم بندر آپ کو بنانے والے نے اتنی صلاحیتوں سے نوازہ ہے، آپ کے کرتب تو اپنی کوئی مثال بھی نہیں رکھتے، آپ کی ایک درخت سے دوسرے درخت تک چھلانگ کا کیا کہنا ، کسی اور جانورمیں تو آپ جیسئ کوئی خوبی بھی نہیں، آپ تو آپ  بس باقی سب بکواس، بندر صاحب یہ سب سن کر خوشی سے معطر ہوگئے۔
لیکن محترم بندرایک مسلہ ہے، لومڑی نے قدرے مایوسی والی شکل بناتے ہوئے کہا۔
بندر اپنے حوصلے سنبھالتے ہوے بولے، بتاو بتاو کیا مسلہ ہے۔۔
لومڑی جو پہلے ہی اپنا جملہ تیا ر کر بیٹھی تھی فورا” سے بولی۔
حضور آ پ میں خود اعتمادی کی کمی ہے۔
بندر یہ سن کے تھوڑا حیران ہوا اور پوچھنے لگا کیا مطلب ہے تمہارہ۔
تو لومڑی نے موقع جانتے ہوئے بولی : آ پ کی اتنی صلاھیتیں کس کام کی جب آپ اپنے جنگل میں غلاموں کی طرح رہیں، ئہ جنگل آپ کا، اس کے ہر درخت سے ہر چشمے سے آپ واقف ہیں، پھر کیوں کوئی اور بادشاہی کرے۔۔۔۔
بندر کو بات تھوڑی تھوڑی سمجھ آئی تو لومڑی نے کہا اب موقع اور حالات یہ کہتے ہیں،
کہ آپ کو اس سلطنطنت جنگل کا بادشاہ بنایا جائے۔۔۔۔
بندر اپنی خود اعتمادی کو کو اعتمادی کے بعد کی بھی حد تجاوز کرتے ہوئے راضی ہوگئے۔۔۔۔
لومڑی خوش ہوگئی اور  چیخ چیخ کر نعرے لگانے لگی،
 آج کے بعد جنگل کا بادشاہ، بندر بادشاہ،
آج کے بعد جنگل کا بادشاہ، بندر بادشاہ،
لومڑی یہ کہ کر آگے نکل گئی اور یہاں بند ر خوشی میں ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگ لگا تا ،الٹا لٹکتا سیدھا لٹکتا اور اس اعتماد کی آخری سیڑھی پر بیٹھ کر خوش ہوتا کہ وہ جنگل کا بادشاہ بن گیا ہے۔
لومڑی نے جنگل میں بات شہر کی افواہ کی طرح پھیلادی اور سب کو معلوم ہوگیا کہ 
آج کے بعد جنگل کا بادشاہ، بندر بادشاہ۔
وہاں جب دوسری طرف شیر واپس آیا تو اس کو ساری سازش کو علم ہوگیا اور سازش کی بنیاد رکھنے والی لومڑی کا بھی۔
تو وہ بھی سمجھ گیا اصل مسلہ اس لومڑی کا ہے تو اسی کو سبق سکھانا ہے۔ اور شیر نے فوراََ سے پہلے لومڑی کو ڈھونڈا اور اسے  دوتین پنجے لگا کہ ذدکوب کیا اور ڈرایا دھمکایا۔
لومڑی نے شیر سے جان چھڑائی تو دوڑ دوڑ کے بند ر بادشاہ کی آرام گاہ پہنچی جہاں بندر صاھب ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھے موچھوں کا تاوہ دے رہے تھے۔
لومڑی پہنچتے ہی شروع ہوگئی، بندر بادشاہ بندر بادشاہ آپ کی ریاست میں غظب ہوگیا مجھ پر ظلم ہوگیا۔۔
بندر نے سارا قصہ سنا اور کہا مجھے دشمن کی سازش کا علم ہے تم بے فکررہو میں عملی اقدامات کرتا ہوں۔
وہ لومڑی کو وہیں چھوڑ کر حدِ رفتار میں ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگ لگاتا ہوا باہر نکل گیا۔ لومڑی بندر کی یہ لگن اور جذبہ دیکھ کر متاثر ہوئی اور گھر چلی گئی ۔
کچھ دن پھر شیر کو یہ خیال آیا کہ ابھی لومڑی کو مزید سبق سکھانا چاہیے، اور پھر وہی پرانہ قصہ،لومڑی نے مار کھائی شیر سے ، پھر شکایت لے کر بندر بادشاہ کے پاس پہنچی۔
بندر بادشاہ قصہ سن کر باآوازِ بلند بولے میں دشمن کو سبق سکھا کے رہونگا، اور پھر وہی جزبہ وہ جوش ایک درخت سے دوسرے درخت۔۔۔۔
لیکن لومڑی بے چاری کی زندگی میں شیر سے بچنے کا کوئی مستقل حل نہ نکلا، ساری تکلیفوں کو وہ لیکر بنرد بادشاہ کے پاس آئی لیکن اس دفعہ جو آئی تو اسکی حالت کافی بری تھی ایک ٹوٹی ٹانگ ،منہ پر شیر کے پنجے اور ہر رخ ظلم اور بربریت کی گوائی دے رہا تھا۔
لومڑی آتے ہی رو پڑی اور بولنے لگی ارے او بندر باشاہ یہ کیا ہورہا ہے تیری ریاست میں ظلم ہورہا ہے، بار بار ماری جارہی ہوں، میں کیا سے کیا ہوتی 
جارہی ہوں۔۔۔
بندر بادشاہ جو خود اعتمادی سے آگے نکل چکے تھے جن کے زہن میں یہ سوچ بیٹھ چکی تھی کہ سب سے بہترین ہے بولے دیکھو لومڑی بی بی میں تمہیں بتا رہوں کی ساری مکار چالوں سے واقف ہوں اور تم دیکھ بھی رہی ہو میں عملی اقدامات کر رہا ہوں میرے جتنی اور بھاگ دوڑ کون کرتا ہے ایک درخت سے دوسرے درخت ۔۔۔۔۔
لومڑی نے آخری سانسیں لیتے ہوئے بولی مگر شیر حرامذادہ تو زمین پر ہے۔۔۔۔۔
اب لاذم نہیں کہ یہ کہانی آپ کو سمجھ آیے یہ بھی ضروری نہیں کہ آ یونیورسٹویز کے بند ہونے کی خبر کا بھی اس سے کوئی تعلق ہو، کیونکہ یہ آپ کے لیئے نہیں تھی میں تو اپنے ساتھ سرگوشی میں بات کر رہا تھا۔
اور لازمی نہیں کہ اپنے ساتھ کوئی سرگوشی میں بات کریں وہ تمیز کے داہرے میں ہو اور آپ اپنے ساتھ سرگوشی میں اپنے ساتھ جھوٹ بھیں نہیں بول سکتے۔۔۔

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these