پرٹیکل بک اور ہم

 
میٹرک اور ایف ایس سی میں کئی کاپیاں اشکال اور الفاظ سے بھرنی پڑیں جن کو ہماری طالبعلمی زبان میں ”پریکٹکل بک” کہا جا تا تھا مگر حقیقت میں اس کا فنکشن اس کے نام سے مماثلت نہیں رکھتا تھا،

 

میٹرک کے دوران استادِ گرامی نے کہا ہمارے سائنس روم میں اتنا سامان نہیں کہ آپ کو پریکٹکل کرواسکیں اور جتنا سامان اور ٹائم تھا اس حصاب سے صرف ان دو قسم کے طالبعلموں کو یہ عملی نمونہ دیکھنے کا ملتا ایک وہ جو بہت ہی زیادہ چپکو تھے جن کو ہر جگہ گھسنے کی عادت تھی دوسرے وہ جن کے قد، اللہ نے لمبے کئے تھے۔۔
ہمارا شمار ان میں سے کسی میں نہیں ہوتا تھا تو لہاظہ کبھی اس طرح کے حادثےکو مکمل طورپر دیکھ نہ سکے۔
بر حال استاد سے ہمیشہ ہی یہ سنتے رہے کہ پریکٹکل کاپی کے نمبر آپ کو فرسٹ ڈویژن آنے میں بہت مدد کرتے ہیں اور اس کا ایک ایک نمبر بہت قیمتی ہے ،ہم یہ سنتے ہی ستر، ستر نمبر کے پیپرز کو کم اہمیت دیتے اور پریکٹکل بکس پر زیادہ وقت دیتے پھر ان پر رنگین شیٹس لگوانہ ، خوبصورت نام لکھوانا ا ور بعض طالبعلم تو کاپیوں کو خوشبو سے معطر کرنے کا بھی اہتمام کرتے۔

 

ان دو قسم کے طالبعلموں کو بھی صرف عملی نمونے کو ہوتے دیکھتے وقت ہی کچھ فائدہ ہوتا،باقی لکھنے کے لئے وہ بھی ہماری طرح ٹیچر کے مشورے کے مطابق کسی سابق طالبعلم کی پریکٹکل بک سے دیکھ کر لکھتے تھے جو آسانی سے سائنس روم کے کباڑ کھانے سے مل جاتی تھی۔۔۔

 

لکھنے میں تو ہم پورے اتر جاتے تھے، لیکن شکلیں بنانے میں ہم اتنے ماہر نہ تھے اور اس صورت میں دو لوگ ہماری نظر میں ہوتے یا وہ جو سکول کے سب سے ددکارے ہوئے طالبعلم تھے جو شعبہ آرٹ میں پائے جاتے تھے، یا ہماری بہنیں یا کزنز ۔۔چونکہ ان دونوں کے ہاتھوں میں نفاست زیادہ تھی۔

 

خیر لکھ بھی لیا ، اشکال بھی بنولیں اور کور بھی لگا لیے ، رنگ برنگے انداز میں نام بھی لکھ لئے۔۔۔۔

 

مگر دل اس وقت ٹوٹتا تھا جب باقی پرچوں کے بعد پریکٹکل کا امتحان ہوتا،
آپ سائنس روم میں داخل ہوتے ہیں کاپی انتہاہی سلیقے سے ہاتھ میں لیے ہوئے، کپڑوں پر استری، بالوں پر سرسوں کا تیل، جوتوں پر پالش، عطرکی مہک کے ساتھ ۔

 

اور پریکٹیکل سپروائزر آپ کے ہاتھ سے کتاب چھنینتے ہیں ،آپ کے چہرے کو دیکھتے ہیں ، کاپی کا پہلہ صفہ دیکھتے ہوئے تصدیق کرتے ہیں کہ مطعلقہ استاد کی دستخط موجود ہے ،
پھر اس کاپی کودونو ں ہاتھ سے چیر دیتے ہیں۔۔
اس وقت گویا ایسا لگتا ہے کہ کوئی ہمارا دل چیر رہا ہے۔۔۔۔
اف اللہ ۔۔۔۔
اگر ایک نمبر دینا تھا اور کاپی کی چیر پھاڑ ہی کرنی تھی اور تو طالبعلموں سے اتنی محنت کیوں کرواتے ہو۔۔۔۔۔؟

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these

No Related Post