کبھی آپ کو اتفاق ہوا کہ کسی گائوں گئے ہوں ؟ ، آپ خود نہیں تو آپ کے ننیال ،ددیال یا کوئی اور رشتے دار یقینی طور پر گائوں میں رہتے ہونگے، آپ نے وہ مشعور مثال بھی سنی ہوگی کہ جب مکان کچے ہوا کرتے تھے اور لوگ سچے ہوا کر تے تھے۔۔۔
ان کچے گھروں کی زندگی بھی عجیب ہوا کرتی ہے، ہوا دار کمرے،بند ذہن ،بڑے صحن ،چھوٹے دل،مکان کے سامنے درخت،نظروں کے سامنے تنگی۔
ان درختوں پر چھوٹی چھوٹی چڑیاں صبح سے لیکر شام تک چوں چوں کرتی رہتیں، یہ چڑیاں کبھی دوپہر میں صحن کے نیچے اس جگہ پر بیٹھ کر گندم کے دانیں چنتی ہیں جہاں پر گندم یا اناج کی بوریاں رکھی گئی ہوتیں۔ اور کبھی صحن کی چھت پر بیٹھی رہیتں اور دوسرے اونچھی اڑام بھرتے پنچینوں کو دیکھتی رہتیں ، ان چڑیوں کو باقی پرندوں کے مقابلے میں گھر کے باسیوں سے زیادہ محبت ہوتی ہے یہ ہی وجہ تھی کہ ان کچے گھروں میں موجود ایک کمرے میں یا تو گھونسلے بنا تیں اور دروازے سے داخل ہوکر روشن دان سے نکل جاتیں۔۔
ان چڑیوں کی یہ حرکات ان کچے گھروں میں میں رہنے والوں کا برہم بحال رکھتیں۔
پھر ہوا یہوں کہ دنیا کی شکل صورت میں بتدریج تبدلی آتی رہی ، ان معاشی تبدیلیوں کی وجہ سے کچھ کچے مکان والے غریب ہوگئے اور وہ جھونپڑیوں پر پہنچ گئے اور کچھ لوگ آگے نکل گئے اور پکے مکانوں اور عالیشان کوٹھیوں میں رہنے لگے۔لیکن آبادی کا ایک حصہ انہی کچھے مکانوں میں رہنے لگا، ان کی زندگیوں میں صرف اتنی تبدیلی آئی کہ پہلے جو وہاں ہاتھ کے پنکھے استعمال کیے جاتے تھے وہاں پر بجلی کے پنکھے آگئے ایک تھوڑی بہت پیلے سرخ رنگ کی روشنی ۔۔
یہ پنکھے بڑے سخت قسم کی دھات سے بنائے گئے ہیں شاید کبھی کسی نے ان کو بند کرنے یا ان کے نقش و نگار میں تبدیلی لانے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔
جھونپڑیوں میں بٹ جانے والی چڑیوں میں اتنی کوئی پریشانی نہیں کیونکہ وہ آزاد ی میں رہتی ہیں آزاد ہیں کھانہ بدوش ہیں اور ان کے پاس کوئی بجلی کا پنکھا بھی نہیں، اور جو کوٹھیوں میں گئی ان کے لئے بھی اعلی قسم کی ذندگی ہے بڑے عالیشان محل،اور گھروں کی دیواروں سے چپساں ایئر کنڈیشنز جن سے ٹھنڈی ہوا ن کی زندگی کو بھر پور طریقے سے گزارنے میں مدد کرتیں۔
لیکن کچے مکانوں میں رہنے والی چڑیوں کی زندگی البتہ مشکل کا شکار ہے، چونکہ اب جب کبھی وہ چڑیاں اس چھوٹے کمرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہیں تو بجلی پر چلنے والا تیز پنکھا، ان کی زندگی کو ہڑپ کر جاتا ہے، جن کی زندگی بچ جاتی ہے ان کے پر ہمیشہ کے لئے کٹ جاتے ہیں اور کسی پنجرے میں پھینک دی جاتی ہے اور پھر موت کے پنجرے تک وہی اس کا پنجرہ ہوتا ہے۔
اے پنجرے کے پنچھی تیرے غم نہ جانے کوئی۔
آج بھی آئے روز کچے مکانو ں میں رہنے والی چڑیاں ان چلتے پنکھو ں کا شکار ہوجاتیں ہیں۔
اڑتی چڑیوں کے پر تو سب گنتے ہیں، مگر مرتی چڑیوں کی تعداد شاید ہی کسی کو معلو م ہو۔