ہمارے ساتھ المیہ رہا کہ ہم المیوں کے اتنے عادی ہوگئے کہ حادثات و واقعات ہمارے لیے ایک عام سی بات ہوگئ، مرنا مارنا، آپریشن،جنگ و جدل، خراب حالات، نازک صورتحال ۔ یہ سب سن سن کے اس قدر مضبوط کہیں یا اسے ڈھیٹ پن کا شکار کہیں ہوگئے
کہ ہمارے اندر احساس زخم نہیں رہتا،۔
آس پاس ہوتی ہوئی بحث بر نظر دوڑائی جاوئے تو صاف نظر آتا ہے کو نوجوانوں کے رویے تشد د پسند ہیں، مرنے مارنے کی باتیں، ،دوسروں سے زیادہ ہتھیا ر رکھنے کی باتیں،جنگ میں بہادری کے قصے،،اور نہ جانے کیا کیا باتیں ۔
لیکن ان سب کو دیکھ کر مجھے یہ محصوس ہوتا ہے کہ یہ ان کا قصور نہیں میرے جیسے نوجوان جو نوئے کی دہاہی میں پیدا ہوئے انہوں نے تشدد، نازک حالات کے ، ہنگامی ۔صورتحال،یہودیوں کی سازش، دشمن کی چال علاوہ کچھ سنا ہی نہیں نہ ہی کچھ دیکھ پائے۔۔
جیسے جیسے بڑھے ہوتے گئے کبھی کشمیری میں جہاد پر جانے والوں کے قصے سنائے گئے، کبھی افغانستان میں لڑنے والوں کے قصیدے، دس بارہ بہاروں کے بعد جب اکیسویں صدی میں داخل ہوئے تو افغانستان جنگ کی خبریں آنے لگیں امریکہ کے درد ناک جنگی عظائم کو ہمارے مشرفی جنرلیوں نے خوبصورت اوراق میں رکھ کر پیش کرتے رہے،ابھی ہم وہیں تھے کہ ابھی اس جنگ کو تھوڑا محصوس کرتے کہ جنگ کیا ہوتی ہے اور دوسروں کی تباہی پر ہی خوش تھے۔
کہ وہ جنگ ہمارے گھروں میں آ کر پہنچی اور دس سالوں میں کیا کیا خبریں نہ سنی ان کانوں نے اور ان آنکھوں نے کیا کچھ نہ دیکھا ۔ خودکش دھماکے ،ٹارگٹ کلنگ،اقتدار کی جنگ ،ناذک حالات اور بس ہر وہ لفظ سنا جو تشدد،خوف اور دہشت سے بھر پور تھا۔
کوئی ایسا لمحہ نہ آیا کہ امن کی بات ہو خوشحالی کی بات ہو۔۔۔اور یہ زندگی یہوں کٹتی گئ۔
اب ہمیں کم از کم اپنی آنے والی نسلوں کو ان تشدد بھرے رویوں سے آزاد کر نا ہوگا۔ ہم نے ان کے لیے ہیرو کی تعریف بدلنی ہوگی۔ اب ہیرو یقینی طور پر وہ شخص نہیں جس نے کسی کو مارا ہو آیا وہ حملہ کرکے مارے یا دفع میں مرے، ہیرو وہ لوگ ہونے چاہیں جو جنگ ، بد امنی کے ، شدت پسندی،غربت، کے عوامل کو روکیں اور لوگوں کو زندگی طرف لے آہیں اور اگر ہم نےجنگ کو ختم نہیں کیا تو جنگ ہمیں ختم کردیگی۔
One thought on “ہماری نسل نے کیا دیکھا”