یہ خبر نئی نہیں کہ ، کوئی جاننے والے غائب ہوگئے ہیں۔ گویا اگر ایسی صورتحال نہ ہوتی تو سلمان حیدر کی بہادری، ان کی حق گوئی ، ان کی جرت اور ہر حال میں ان کے لے بولنا جن کے لئے کوئی نہیں بولتا پر شق کے باد ل چھائے رہتے ۔
لیکن البتہ یہ بات تھوڑی سی پریشان کن ہے کہ “سیف سٹی “یعنی کے اسلام آباد جو کہ میرے ملک کا دارلحکومت ہے اس سےسلمان حیدر کا کتابوں کے بغیر غائب ہونا یقینی طور پر تشویش ناک ہے۔ اگر آپ کتابوں سمیت غائب ہوجاتے ، موبائل بند رہتا ، آپ کی فیس بک وال پر کوئی دل کو چھوجانے والی چٹ پٹی اپڈیٹ نہ آتی تو ہم جو آپ کے چاہنے والے ہیں دیوانے ہیں ، یہ سمجھ لیتے کہ سلمان صاحب یا اپنے سلو بھائی کسی نئی تحریر، کسی نئی ٹھیٹر پروڈکشن یا کسی اور سماجی مسلے پر ویڈیو بنانے میں مصروفِ عمل ہیں لہاظہ اسی لئے منظر عام سے غائب ہیں۔ لیکن بھر حال اس دفعہ صورتحال مختلف ہے آپ غائب ہیں لیکن بغیر کتابوں کے۔
ہم جو ابھی بڑے ہورہے ہیں، جو سیکھنے کی جستجو میں ،آگے بڑھنے کے کی کوشش میں ہیں وہ کن لوگوں سے سچائی کا ، بہادری کا ، شجاعت کا سبق لیں ؟ چونکہ جن کو سچا سمجھا، جن کی باتوں کو دل نے کہا یہ تو سچ لکھتے ہیں، تاریخ کے سچے لوگوں کے ساتھ مواذنہ کرکے دیکھا، باقی دنیا کےبہادر لوگوں کی مثالوں پر ان کو ہمیشہ پورا اترتے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ ایسے ہی لوگوں کو ہمارے ملک میں ہمیشہ ہی سے اس طرح کے نقصان کا سامنہ کرنا پڑا ہے.
آخر کیا وجہ ہے کہ ہم بحیثیت معاشرہ ایسے لوگوں کو زیادہ عرصے تک برداشت نہیں کر سکتے جن کی باتیں ، جن کی تحریں سچ کی اصل تعریف کے ذمرے میں آ جاتی ہیں جو سچ کو بولتے ہوئے کسی چھوٹے ، بڑھے ، کسی غیر محبِ وطن یا محبِ وطن ، کسی کافر یا غیر کافر ، ایجنٹ یا غیر ایجنٹ میں کوئی تفریق نہیں کرتیں ؟ یا ہم یہ چاہتے ہیں کہ صرف وہی بات سچ تصور کی جائے جو ہم میں سے کچھ لوگوں لئے شاید قلیل مدتی سچ ہو ں، اور جیسے ہی مدت پوری ہو جھوٹ واپس اپنی اوقات میں آجائے ؟
ہم ( یا ہم میں سے کچھ) آخر کیوں نہیں طویل مدتی سچ کی طرف اپنا سفر شروع کرتے ؟ اورسلمان حیدر جیسے لوگ جو ہمیں یہ درس دیتے رہتے ہیں کہ طویل مدتی سچ کی طر ف جایا جائے ۔ ان کی باتوں پر توجہ کیوں نہیں دیتے اور اور دیتے بھی تو صرف اس وقت ہیں جب ہم محصوص کریں کہ جھوٹ سچ پر غالب نہیں آرہا لحاظہ آیئے سچ کو اغواہ کر لیتے ہیں۔
تاریخ کے آئینے میں ہر فرما بردار مگر جاہل قوم کے سفر کو ریگستان میں یا انجان سمندروں میں غرق ہوتے دیکھا، لیکن ہم شاید ان سے سیکھنے کو تیا ر نہیں لوگ یہ تو چاہتے ہیں کہ ہم فرما بردار بنیں لیکن یہ گوارہ نہیں کے بحیثیت قوم ہم اجتماعی سچ بولیں، اجتماعی اہل بنیں کے سچ کا سامنہ کرسکیں کیونکہ جب سچ غالب آتا ہے تو زبردستی کا سچ نما جھوٹ زیادہ عرصہ تک ٹھہر نہیں سکتا ۔
بلوچستان بھی سلمان صاحب کا مقروض ہے چونکہ جتنی آوازوں کو بلوچستان سے باہر سے ،بلوچستان کے لوگوں کے لئے آواز اٹھاتے دیکھا ان میں سے ایک سلمان صاحب رہے ہیں ، میں چونکہ بلوچستان سے ہوں تو یہ بتا تا چلوں کہ سلمان صاھب بلوچستان آ پ کا مقروض بھی ہے اور شرمندہ بھی ہے کہ ہمارے اندر آواز نہیں رہی کہ ہم آپ کے لئے آواز اٹھا سکیں، بس دعا کرتے ہیں کہ آپ صیح سلامت واپس آہیں اور اپنے علم سے سچ کو خاص سے عام کرنے کے سفر کو جاری رکھیں اور اگلی دفع جب آپ غائب ہوں تو کتابوں سمیت غائب ہوں اور ہم سمجھیں کے سلمان صاحب کسی نئے شاہکار کو بنانے گئے ہیں کچھ دیر میں پیش ہونگے۔