جہاز ،جہاز، بڑا جہاز۔
قیصر رونجھا
گائوں میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسا “بچے “نما نوجوان ضرور ہوتا ہے جو عموماََ بچوں کو گلی کے کسی کونے یا کسی تھلے پر بیٹھ کر کہانیاں سناتا ہوا نظر آتا ہے۔
اس کے ارد گرد ہمیشہ بچوں کا ہجوم سا رہتا ، اس کی اصل وجہ اس کے کہانی سنانے کا فن ہے ، اور کہانیاں ایسی جو حقیقت سے بالکل دور ، بچوں کی دنیا میں بچوں جیسی کہانیاں، اور اگر بچوں کو وہ کہانیاں کو ئی عمر میں بڑھا شخص سنائے تو انکا یہ ایمان کہ جو وہ سوچ رہے ہیں وہ ہی صحیح ہے مظبوظ ہوتا جاتا ہے۔
کہانی ہمیشہ اپنے ہیرو کی تعریف میں گزررتی جاتی ہے اور تھوڑے وقفے میں میں اس ہیر و کی کوئی نہ کوئی کوالٹی ، عادت سننے والوں بچوں سے بھی جوڑ دی جاتی مثال کے طور پر “وہ ہیرو جیسے ہی گوڑے سے اترا تو اس کے بال بالکل اسلم کے بالوں کی طرح نظر آرہے تھے ، اس نے آصف کے کپڑوں کے رنگ کے جیسے ہو بہو کپڑے پہنے ہوتے ہیں، اب بچوں کے ہجوم میں بیٹھا “اسلم اور آصف ، جیسے ہی یہ جملہ سنتے تو ان کے چہرے پر روشنی اور آنکھوں میں (زوم کرکے دیکھیں) تو ساری ہیر و والی شخصیت جاگ اٹھتی، ان کے ہاتھ اٹھانے ، گردن گمانے، لحاظہ ہر حرکت پر بیک گرائونڈ میوزک بجھنے لگتا ہے لیکن وہ صرف اسلم اور آصف کو ہی سنائی دیتا۔
ان کہانیوں میں اکثر ہیرو کی زندگی کا موازنہ گائوں کے ان کے اشخاص کے ساتھ کرایا جاتا، جو تھوڑ ا بہت امیر ہوتے، یا تھانیدار جیسا کوئی تگڑا صحت مند آدمی ہوتا یا کوئی پہلوان۔حر حال میں کہانی والے ہیرو سے نیچے کردیا جاتا ، مثال کے طور پر “ علی پولیس والے کو تو دیکھا ہوگا نہ اس کی باڈی بھی ہیرو کے سامنے کچھ بھی نہیں ، اس کو تو بس ہیر و صرف دو پنچ ،مارے تو ۔۔۔، اور جیسی سیٹھ حبیب کے پاس گاڑی ہنہ اس سے زیادہ گاڑیاں تو ہیرو کے پاس تھیں” اور خود ہی ہنستا اوربچے بھی ہنستے اور کہانی آگے بڑھتی۔
ان مزید جملوں سے بچوں کا اپنے ارد گرد کے لوگوں سےمتاثر ہونے یا ان کو بڑھا سمجھنے کا احساس نکل جاتا اور بس سمجھنے لگتے کہ جو اصل چیز ہے نہ وہ بس اس ہیرو کے پاس ہے۔
بچے کہانی میں جنم لینے والے ان کرداروں کی مثال اپنی روز مرہ کی گفتگو میں بھی لے آتے، مثال کے طور پر میں بھی اس جیسی باڈی بنائنوگا، اور دیکھو میں کیسے ہیرو کی طرح جنمپ مارتا ہوں، اور الغرض ہر وہ حرکت جو وہ کرتے اس کہانی نویس نے انہیں سنائی تھی۔
پھر ایسے محلوں میں کچھ ایسے لونڈے بھی ہوتے جن کو اس بچے نما نوجوان کی یہ جھوٹی کہانی نویسی کی حرکت پسند نہیں آتی کیونکہ وہ سمجھنے لگے تھے کہ یہ جھوٹی کہانیاں بچوں کو حقیقت سے دور کر جاتی ہیں اور وہ بڑھے ہوتے ہوتے حقائق سے منحرف ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو اپنے ارد گرد کو بدلنے کے بجائے دوسروں کے آسرے پر رہنے لگتے ہیں اور کہانیوں میں ہی جیتے رہتے ہیں۔
وہی لڑکے معصوم بچوں کو کہانی نویس سے جان چھڑانے کے لئے جب بھی اسے گلی کے کسی کونے یا محلے میں بچوں کو جھوٹ سناتا تو دیکھتے تو اس کے سامنے کھڑے ہوکر آسمان کی طرف دیکھتے اور اوپر انگلی کا اشارہ آسمان کی طرف کر کے بولتے وہ دیکھو جہاز ، جہاز، بڑھا جہاز ، ب گائوں کے بچوں کو جہاز کو دیکھنے کابڑا شوق ہوتا، کہانی نویس کو فوراََ سے چھوڑ کر گلی کے درمیان آکر جہاز کو ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں۔
یہ روایت ایسی پھیلی کے گائوں میں اب جو بھی جھوٹ کی سائکل چلانے کی کوشش کرتا تو کوئی نہ کوئی مردِ حق آجا تا اور دوسری طرف کھڑے ہو کر آسمان کی طر ف انگلی کرتا اور با آواز بلند کہتا، جہاز،جہاز، جہاز، وہ دیکھو بڑھا جہاز۔
تو سننے والے فوراََ سمجھ جاتے کہ جن صاحب کو ہم سن رہے تھے وہ جھوٹ بول رہے تھے۔
کل میں نے بھی ایک کہانی پڑھی اور پھر سوچا کہ کاش کوئی ایسی ٹیکنالوجی ہوتی ہے کہ اخبار کی ایک طرف اگر یہ کہانی چھپی ہوتی اور دوسری طرف کو ئی نوجوان کھڑا ہوتا اور کہتا دیکھو جہاز ، جہاز بڑھا جہاز۔۔۔۔