ملے وزیر اعظم نواز شریف کو۔۔۔

محترم جناب نواز شریف،

  وزیر اعظم پاکستان !!!

اس یقین کےساتھ کہ آپ ایک بہتر اور روشن پاکستان کے لئے مصروفِ عمل ہیں،

عزت ماُب وزیر اعظم،  آج ایک خبر سے نظر گزری کہ آپ نے اسلام آباد کے 122اسکولز کے نام کو بدل کر ان شہید بچوں کے نام کیا جو آرمی پبلک سکول کے سانہہ میں پچھلے سال ہم سے دور ہوگئے ہیں، یہ یقینی طور پر ان معصوموں کا یاد رکھنے کی طرف ایک سنہرا قدم ہے۔

میرے دوستوں کا ماننا ہے کہ دشمن کے بچوں(بقول آپ کے) کو پڑھا کر بدلا لینے سے ایک”  تفریق” کا خیال آتا ہے، کیونکہ بچے تو بچے ہوتے ہیں اور ان کا بچہ ہونا ہی ان کی شناخت ہوتی ہے۔

ان کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ  یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے اپنے بچے جو خیبر پختونخوا،سندھ،بلوچستان کے بے شمار علاقوں میں لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں سکولوں سے باہر پائے جاتے ہیں ان تک تعلیم کو لے جانا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیئے ورنہ ایسا نہ ہوں کہ وہ بھی اپنے آپ کو دشمن کا بچہ سمجھیں ؟ اور آ کو تو پتہ ہے جو بچے سکول نہیں جا پاتے وہ زندگی میں کہیں بھی نہیں جاسکتے۔

جناب والا، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ہمیں  نہ پڑھنے والوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ اس اس بات پر بھی غور کرنا ہے کہ جن کو ہم پڑھا رہے ہیں ان کو کیا پڑھایا جارہے ہے ؟ کیا ہماری سلیبس کی کتابیں ہی معصوم بچوں کے زہن ے اندر شدت پسندی، انتہا پسندی، تفریق کا سبق تو نہیں دیتی  ؟ کیا ہماری کتابیں بچوں کے زہن میں دوسری ریاستوں،اقلیتوں اور مختلف نظریات رکھنے والے لوگوں کے خلاف نفرت انگیز،شر انگیز جزبات کو تو نہیں ابھار رہیں ؟

کہیں ہماری کتابیں بچوں کو تبدیلی سے خائف تو نہیں کرتیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے بچوں کو مختلف سوچنے،سوال کرنے اور اپنا نقطہ نظر دینے سے ڈراتے تو نہیں ؟

محترم سرپسرتِ پاکستان،

عرض یہ  کہ ہمیں اپنے تعلیمیِ نظام میں اس طرح کی استطلاحات لانے کی ضرورت ہے  جو بچوں کو بتا سکیں کہ آج کے دور کے ہیرو ایسے لوگ نہیں جو جنگ کرسکیں، مرنا  مارنا جانتے ہوں، بلکہ ہمیں اب ایسی ہیروز کی تلاش ہے جو جنگ ہونے کے سدباب کو روک سکیں،جو لوگوں کی زندگی کو بہتر کر سکیں، اس لئے ضروری کہ ہمیں اپنے بچوں کے لئے ہیروز کی تعریف(Defination) کو بدلنا ہوگا۔

اور ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جن اداروں میں اس قسم کے کے مواد، خیالات اور نظریات کو پرورش ملتی ہے جہاں لوگوں کے دلوں میں علم محبت لانے کے بجائے نفرت کا باعث بنتا ہے، جدھر بچوں کے زہن میں یہ بات پیوند کی جاتی ہے کہ جو صرف وہ دیکھتے ہیں یا سنتے ہیں وہی سچ اور باقی سب کافر ہیں، 

ان سب چیلنجز کو ڈیل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم دشمن کے بچے (آپ کے بقول)  کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنےدوستوں کے بچوں کو بھی ٹیوشن دینے کی ضرورت ہے

اس یقین کے ساتھ کہ آنے والا کل ،گزرے ہوئے کل سے بہتر ہوگا،

پڑھے گا پاکستان تو بڑھے گا پاکستان۔

الٖغرض

قیصر رونجھا

لسبیلہ بلوچستان

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these