جیسے ہر سیلاب کے بعد ہم رضا کاروں کو تلاش کرتے ہیں، امداد جمع کرنے لگ جاتے ہیں اور آفت سے نکلنے کے بعد یہ رٹا لگنے
لگتا ہے ہر طرف، ” کہ دیکھو ہم زندہ قوم ہیں اور ہم نے اتنی تعداد میں امداد جمع کی” اوریہ اور وہ۔ اور اس میں حکومتی لوگ اور ادارے بھی بڑھی بے شرمی سے واہ واہ کہنے لگتے ہیں۔
بالکل اسی طرح آ ئے روز ہماری سوشل میڈیا پر اسی طرح کی مہم نظر آتی ہے کہ یہ بھائی یا یہ دوست یا بچی بہت بیمار ہے اور اس کے لئے اتنے پیسے چاہیں اور ہمارے درمیان بہت سارے ایسے دوست ہیں جو اپنے نام چھپائے رکھتے ہیں اور مدد بھی کر کے کہی جانیں بچا چکے ہیں اور یہ انتہاہی قابلِ تعریف عمل ہے۔
مگرجو بات مجھے کھا ئے جاتی ہے وہ یہ کہ کب تک ہم آفات کا انتظار کریںگے کب تک لوگوں کے بیمار ہونے کا انتظار کرتے رہینگے اور فیس بک پوسٹس کے ذریعے ہم لوگوں کی جانیں بچاتے رہینگے، ہم شاید تھوڑی بہت جانیں اس طرح بچا سکیں لیکن ریاستیں فیس بک یا کراوئد فنڈنگ کے ذریعے نہیں چلتی ہیں انہیں نظام چاہیے ہوتے ہیں۔
ہمیں اپنے حکمرانوں، پالیسی سازوں کے سامنے یہ سوال رکھنا ہوگا کہ ایک بہتر نظام آخر کب ؟ میں اور آپ شاید سوشل میڈیا کے ذریعے چند ایک جانیں بچا نے کا موجب بنیں لیکن ملک میں بے شمار ایسے بھی ہیں جن کے لئے بولنے والا کوئی نہیں جن کی آواز کوئی نہیں سنتا ان کے لئے ںظام کی ضرورت ہے ایک بہتر نظام کی ۔