مُلکِ پاکستان میں آئے روز کے سانحات کے بعد کوئی نہ کوئی میری طرح کا لکھاری گزر جانے والوں کی طرف سے جنت سے کوئی نہ کوئی خط ضرور لے آتا ہے اور گزرے ہوئوں کی طرف سے جنت کے حال حوال کے ساتھ پیچھے رہ جانے والوں کے لئےکہی نصحیتیں بیان کرتا ہے اور کچھ گلوے شکوے بھی خط کے حصے میں شامل رہتی ہیں۔
ہلاک وشہید ہوجانے والوں کے لئے دکھ بھری وائلن کی دُنوں کے ساتھ ساتھ ان کے پیچھے رہ جانے والوں کے غمزدہ چہرے میڈیا کے کیمروں کے ذریعے دکھائی دیتے ہیں اوریہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آ پ مرکر امر ہوگئے۔ آپ نے تاریخ رقم کردی اور کس حد تک دوسرے لوگوں کو بھی یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس طرح مرنے سے کیا پزیرائی مل سکتی ہے اور کس طرح آپ کے گائوں اور علاقے کا نام میڈیا کے بڑھے بڑھے پروگرامز اور چینلز پر آسکتا ہے۔
دیکھنےاور پڑھنےشخص والا بعض دفعہ اس سوچ میں پڑھ جاتا ہے کہ اگر خدا نخواسطہ میں کسی دہشت گردی کا شکار ہوگیا تو میرے گھر والوں کی طرف سے کس میں اتنی ہمت ہوگی کہ میڈیا والوں کے سامنے جواب دیں تاکہ دیکھنے والے کہیں واقعی کوئی کام کا بندہ تھا یا پھر میں چونکہ اتنے دور گائوں میں رہتا ہوں تو کیا میڈیا والے میرے گھر تک پہنچ جاہیگے، یا چونکہ میں ایک قبائلی معاشرے سے تعلق رکھتا ہوں تو کیا میری ماں جس کو اردو بھی نہیں آتی یا کیامیری بہنیں میڈ یا کے سامنے آجاہینگی۔
مجھے نہجانے کیوں محصوص ہوتا ہے کہ اب ذرا کہانی کو بدلا جائے اور جنت کے بجائے ان لوگوں سے خط لایا جائے جوممکنہ طور پر دوسری طرف گئے ہیں، تاکہ پڑھنے والے عبرت بھی حاصل کرسکیں اور ان کے پیچھے رہ جانے والوں کے لئے بھی سوچنے کا مواد دستیاب ہو اور عین ممکن ہے کہ وہ کچھ نصحیتیں بھی باقی لوگوں کے لئے تھامےرکھتا ہو، کہ پیچھے رہ جانے والو میں نےکسطرح خدا کی طرف سے دی گئی زندگی جیسی قیمتی چیز ان لوگوں کے کہنے میں آکر تباہ کردی جنہوں نے میرے جزبات کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے گمراہ کیا، مجھ سے کسی اور انسان کی جان کو ختم کروایا اور وہ خود ادھر بیٹھ کر میرے جیسے کسی اور کو میری ہی کہانی سنا کے تیار کر رہے ہونگےاور یہ بغیر جانے کے میں ادھر کس قدر شدید عزاب سے گزر رہا ہوں۔ کسطرح میں نے اپنی حیوانیت آکر سکول میں پڑھتے ہوئے معصوموں ،عبادت گائوں میں خدا کی عبادت میں مصروف عابدوں اور بازاروں میں خریداری کرتی ہوئی خواتین، سوال کرتے ہوئے دماغوں کو کسطرح اپنی سفاکیت سے کے ساتھ ختم کردیا اور یہ کہ جس کے نام پر مجھ سے یہ کام کروایا گیا وہ اور اس کا خدا مجھ سے قدر خفا ہیں۔
مجھے میڈیا کی ترجیحات کا علم نہیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ ہم مجرم کے گھر جاہیں اس کی ماں سے پوچھیں کیسے تربیت کی تھی اولاد کی ، کیسا محصوص کر رہی ہو ایک دوسری ماں کو اجڑتے ہوئے دیکھتے؟ والد سے پوچھیں بتاہیں محترم کیسے محصوص ہورہا ہے کے آپ کے سہارے نے کسی اور کا سہارا چھین لیا ؟ کیا یہ تمہارے ہاتھوں بڑھا نہیں ہوا؟ کیا اس کو سکھایا نہیں کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کیا جانے والا تم سے روزِ قیامت سوال نہیں کریگامجھے روکا کیوں نہیں، ٹوکا کیوں نہیں ؟ میں تو ایک بہتر رحمدل،انسان بھی بن سکتا تھا، اشرف المخلوقات کے کے برہم کو قائم رکھ سکتا تھا کیوں نہیں منع کیا مجھے۔۔
پر شاید ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ ہم جس معاشرے کاحصہ ہیں وہ سزااور جزا کےمتعلق کسی متفقہ فیصلے تک نہیں پہنچتا اور ہر شخص اپنی ہی فکر میں ہے کہ اگر میں نے اس کی سزا کو سپورٹ کیا تو عین ممکن ہے کل یہ سزا میری طرف بھی لوٹ آئے۔ ہم مجرم کو مجرم بننے پر شرمندہ نہیں کرتے نہ ہی باقی رہ جانے والوں کے لئے کوئی مثال بناتے ہیں۔ بلکہ جو چلا گیا اس کو اچھا اچھا کرکے واقعات کو بھول جاتے ہیں اور پھر ایک اور نئے واقعہ کی ذد میں آجاتے ہیں۔
اتنا علم تو نہیں میرے پاس مگریہ بات یقینی ہے کہ زبردستی اور جلدبازی میں جنت بھیجا گیا شخص شاید ہی ہماری طرف مڑ کر دیکھنا گوارہ بھی کرئے۔