مگر ا للہ کرے میرے سارے خدشے غلط ہوں۔

ہم نے ٹریفک کو مڑتے دیکھا تو رکشہ ڈرایئور کہنے لگا ڈاکٹر صاحب، آپ یہیں اتر جائو آگے روڈ بند ہے، اس روڈ تک پہنچتے پہنچتے ہمیں کوئی قریباٗ چار،پانچ فون آچکے تھے کہ جلدی آجائو حالات خراب ہیں۔ رکشے سے پیسے دیکر اترتے ،اس سے پہلے 12،13 لڑکے جن کی عمر کوئی قریباۤ 11 سال سے 17 سال کے درمیان ہوگی رکشے کی طرف بڑھے اور رعب دار آواز سے بوڑھے رکشہ ڈرایئور کو رکشہ بند کرانے لگے۔

 

ہم رکشہ چھوڑ کے آگے نکل چکے تھے،ساری دکانیں بند تھی کافی تعداد میں لوگ ارد گرد کھڑے تھے، کچھ نوجوان ٹائر جلا رہے تھے اور کچھ نعرے بازی کرتے ہوئے دکانیں بند کر واتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔

 

ہم پید ل چل ہی رہے تھے کہ سفید داڑی والے کے ایک موٹر سائکل سوار جو ہم سے آگے ہی گزرا تھا کہ نوجوانوں کا ایک گرو آگے دوڑا اور بڑھتے ہوئے اس کے موٹر سائکل کے سامنے آگئے، اترو،اترو کی آوازیں لگانے لگے۔

 

چچا جی کہنے لگے، میرا گھر ساتھ میں ہی جانے دو، تو نوجوانوں میں سے ایک نوجوان آگے بڑھا اور کہنے لگا، موٹر سائیکل بند کرو اور ہاتھ میں لے کر جائو۔

 

اور مجبوراۤٓ وہ بڈھا شخص جو غالباۤ اپنے بیٹے کے ہمرا تھا ، اپنے ہی بیٹے کے سامنے یہ بے عزتی دیکھ کہ دکھی تو تھا لیکن کچھ نہیں کر سکا۔ اور بائیک اپنے بیٹے کے حوالے کی اور ساتھ ساتھ آگے چلنے لگا۔

 

میں شاید اس طرح کی صورتحال سے زیادہ ہی گھبراتا ہوں تو میں نے اپنے کزن ڈاکٹر کو کہا چلو تیز ،تو وہ کہنے لگا کچھ نہیں ہوتا۔

 

اگلے  موڑ پرمسجد کے ساتھ کھڑے ایک شخص کو میں نے کہتے سنا کہ رستہ بند مت کرو یہاں نمازیوں نے آنا ہے توہ نوجوان جو قدرے عمر میں بڑھے تھے ساتھی دوست کے ساتھ قہقہ لگاتے بولا نہیں، آُپ کو پتہ نہیں احتجاج ہورہا ہے۔

 

خیر میں سارے مرحلے دیکھتا دیکھتا بالآخر اپنی ہاسٹل میں پہنچ چکا ہوں۔

 

لیکن مجھے  اس صورتحال سے ڈر نہیں ، جتنا ڈر ان بچوں اور نوجوانوں سے ہے ان کےمستقبل سے ہے،

 

خدشہ ہے شاید ہمارا آنےوالا کل ہمارے گزرے ہو ئے کل سے بھی خراب ہو۔

 

مگر ا للہ کرے میرے  سارے خدشے غلط ہوں۔

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these

No Related Post