فوٹو کاپی شیئرنگ سےفیس بک شیئرنگ تک ۔

 8 سال  قبل ،جمعہ کا دن تھا اور میں گھر میں اکیلا تھا، نیند سے آنکھ کھلی توصبح کے قریباً دس بج چکے تھے میں کمرے سے باہر نکلا تو  دیکھا ،گھر کے مین گیٹ کے نیچے  لفافہ پڑا ہوا ہے سوچا کوئی ڈاک آئی ہے۔مگر ڈاک اس ٹائم  ”ناٹ پاسیبل”
خیر میں آگے بڑھا ، لفافہ اٹھایا ۔نیند سے تھکی آنکھیں ذبردستی کھولیں، تو جملے کچھ اس طرح تھے، ”
 ایک بزرگ نے خواب دیکھا  کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ہر اس شخص پر لازم جو اس کے پڑھے کہ اس پیغام کو سو لوگوں تک پہنچائے ،پہلے بھی  کسی نے مذاق سمجھ کے اسے ٹالا تھا اور بہت نقصان اٹھایا۔۔۔۔۔
                                                …………………………………………………………………………………………………………………………
پھر وقت آگے بڑھا بات  خط سے نکل کر ایس ایم اس تک پہنچی ہر روز ایک ایسا میسج لازم تھا جس میں لکھا ہوتا تھا آپ کو خدا کی قسم ہے 20 لوگوں تک اس میسج کو فارورڈ کریں  اور دیکھیں کیسے آپ کی قسمت بدلتی ہے فارورڈ نہ کرنے والے خود ذمہ دار ہونگے یا پھر ایسے ہوگا روزانہ اتنے میسجز فارورڈ کرتے ہیں اگر اسے بھی کردینگے تو کتنوں کی زندگی سنور جائیگی۔
اور بے شمار دوست ایس ایم ایس فارورڈ کرنے کے بدلے زندگی سنورنے کے سودھے کو سستا سمجھ کر اسی سودھے میں لگے  رہتے۔
جس طرح ٹیکنالوجی ایک گلوبل ولیج بن گئی اس طرح بلکل اسی طر ح چالبازوں /گمراہ اشخصاص کی پہنچ بھی بڑھ گئی ہے۔ آج کل بات خط،ایس ایم ایس سے بہت آگے نکل چکی ہے اور سوشل میڈ یا آج کل اس جال میں پھنسا ہو اہے، شاید یہ صرف ہمارے ہی ملک میں ہے۔
اس کی سب سے بڑھی مثال فیس بک ہے جہاں پر آئے روز ہزاروں پاکستانی شامل ہو رہے ہیں  ۔ چونکہ فیس بک  تیز ی سے پاکستان کے اندر مقبولیت پارہاہے تو لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کے لئے یہ انتہائی  آسان اور سستا میڈیم ہے ،  چونکہ نئےآنے والے یوزرز کو اتنا اس کے بارے علم نہیں تو وہ آسانی سے ان کا شکا ر بن جاتے ہیں۔
ہوتا یہ ہے کہ نامور لوگوں /تنظیموں کے نام سےفیس بک پیجز بنائے جاتے ہیں، جن میں   ان اصل  لوگوں کا دور دور تک کوئی کردار نہیں ہوتا ۔لیکن چونکہ آپ کو اس شخص کا علم نہیں  جو پیچ کے پیچھے بیٹھا اس کو اپڈیت کر رہا ہے تو آپ یہ سمجھتے ہیں  کہ یہ وہی شخص سے جس کے نام پر یہ پیچ  بنایا گیا ہے اور پھر اس دیکھا دیکھی میں آپ بھی وہی چیزیں شئیر کرتے رہتے ہیں اور بغیر یہ جانے کہ جو چیز آپ شیئر کر رہے ہیں اس کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے۔
میرے نزدیک اس کے پیچھے دو مقاصد ہیں ایک تو یہ ایک مخصوص سوچ کو لوگو ں تک پہنچایا جائے تا کہ وہ اسی کو سچ سمجھیں جو وہ پیج شیئر کر رہا ہے اور دوسرا اس کا پہلو پیسےکمانے کا ایک ذریعہ ہے، بے شمار ایسے پیجز ہیں جنہوں نے پیجز کو ویب سائٹس کے ساتھ ملا دیا ہے، ہوتا یہ ہے کہ وہ آپ کو کہانی کی یا کسی خبر کی ایک ہیڈ لائن بتاتے ہیں اور لکھا ہوتا ہے مزید معلومات کے لیے نیچے دیئے گئی ڈسکرپشن میں دی ہوئی لنک پر کلک کریں ۔آپ کلک کرتے ہیں تو ایک ویب سائٹ کھل آتی ہے جس مین شاید  کو ئی زیاد ہ معلومات نہ ہو بلکہ کوئی ویڈیو ہو جو آپنے کچھ دن قبل کسی اور پیچ پر دیکھی تھی کسی اور نام سے ،اس کو کسی اور نام سے تھوڑی سے سنسی خیز ہیڈ لائن کے ساتھ اپڈیت کیا گیا ہے۔ تاکہ آپ جب اس لنک پر کلک کرکے آہیں تو ساتھ ساتھ والے اشتہارات پر آپ کلک کریں اور ان کے اکائونٹ میں آ پ کے کلک کرنے کی وجہ سے ڈھڑا دھڑ پیسے جاتے ر ہیں۔
ایک گروپ یہ کام کرتا ہے کہ، وہ مختلف اقسام کی عموماً مذہبی پکچرز اپلوڈ کی جاتی ہیں اور سوال ہوتا ہے کہ اگر سچے مسلم ہیں تو لائک کریں،یا شیئر کریں،یا لایک کئے بغیر مت جائیگا۔
اب  تو عالم  یہ  ہے کہ مشہور لوگوں کے نام پر پیجز بنائے جاتے ہیں اور پھر انہیں فیس بک کے  ذریعے  اسپونسر   کرایا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لائکس ہوں پھر اس پیچ کو دوباراہ کسی ویب سائٹ کے ساتھ جھوڑا جاتا ہے۔۔
اگر آپ کوئی ایسی چیز شیئر کرتے ہیں جو لوگوں کے درمیان نفرت  کو بڑھانے کا باعث بنتی ہے، تو ایسی چیزوں کو شیئر کرنے سے گریز کریں۔ ہمارے ہاں نفرت پھیلانے والے پہلے ہی بے شمار ہیں۔تھوڑی سی محبت،تھوڑا سا پیار اور تھوڑی سی  امید شیئر کریں۔

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these

No Related Post