آپ کا ناڑا۔۔۔ 

 

قیصر رونجھا

ہال شرکا سے کچھاکھچ برا ہوا تھا، سب سے اہم مقرر جوکاٹن کے کپڑوں پر کلف کروائے سفید شلوار قمیض میں ملبوس اپنی موچھوں کو بار بار تاو لگائے اپنی تقریر کا انتظار کر رہے تھے، میں مقرر کے فنِ تقریر کا شیدائی تھا تو انتظار میں تھا کے موصوف مائک سنبھالیں اور اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ جہوں ہی پروگرام کےمیزبان نے ان کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی اور وہ اپنے مخصوص انداز میں اٹھے اور مائک کی طرف بڑھے، انہوں نے ابھی مائک سنبھالا ہی تھا کہ ہال سے کسی صاحبِ شرارت نے آواز لگائی کے بھائی آپ کا ناڑا نیچے ہے۔

مقرر نے مائک چھوڑکر فوراََ اپنی توجہ ناڑے کی طرف کردی اور اس اچانک ہونے والے حادثے کی وجہ سے ان کی توجہ تقریر سے ہٹ گئ اورساری انرجی ناڑے کو سمبھالنے اور چھپانے پر ضائع ہوگئی۔

وہ دن ہے اور آج کا دن سٹیج پر جانے سے پہلے والی “چیک لسٹ” میں سر فہرست شامل چیز ناڑے کی پوزیشن کو چیک کرنا ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ اس کی ایجاد کہاں ہوئی کس نے کی لیکن یہ یقین ہے جب تک انسان ہے ناڑا ضرور رہیگا، بغیر لکھے اصولوں کے تحت گویا ناڑا عزت کی علامت بھی ہے، مثال کے طور پر اگر کسی سیاستدان یا کسی بھی عوامی بندے کی ایسی تصویر جس میں ان کا ناڑا نظر آرہا ہو تو اکثر و بیشترسوشل میڈیا گروپس میں ناڑے کو سرخ رنگ کے دائرے میں دکھایا جاتا ہے گویا یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ جو صاحب ناڑا نہیں سنبھال سکتے وہ اور کیا سنبھالینگے ؟

ناڑے کا عزت سے کیا تعلق ہے ؟ قدرے ایک غیر اخلاقی سوال ہوگا۔ لیکن اگر یہئ ترقی کرکے بیلٹ میں بدل جائے تو لوگ کوشش کرتے ہیں کہ وہ واضع نظر آئے تاکہ جس برانڈ کا بیلٹ ہے اس کے صدقے ہی صاحب کی عزت و تکریم میں اضافہ کیا جاوئے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اگر کہیں پرناڑا نظر آجایے تو بے عزتی تصور کی جاتی ہے اور اگر کوئی دنیا کے دو امیر ترین اشخاص اپنے بیلٹ چھپائے تصویریں بنایے تو ان کی واہ واہ کی جاتی ہے۔

گزشتہ چھ مہینے میں جہاں امریکہ کے اندر میں نے بغیر کسی تفریق کے بہت ساری ساری چیزیں دیکھیں وہیں بہت سارے ناڑے بھی بغیر کسی جنسی تفریق کے پوری آب و تاب کے ساتھ لہراتے ہوئے دیکھے۔

مجھے بچپن کے اب بھی وہ بہترین مقرر یاد ہیں جن کے ایک ناڑے نے گویا انہیں فنِ تقریر کےکئریر سےمحروم کردیا، ایسا کیوں ہوتاہے کہ ہم انسان کی ساری اچھی چیزوں کو ایک طرف رکھ کر اس بُری (آپ کی نظر میں) یا کہا جائے کہ دوسروں سے قدرِ مختلف نظر آنے والی چیز کو ہی کیوں زیر بحث لاتے ہیں۔

مفتی صاحب کے بقول معاشرے تب بدلنا شروع ہوتے ہیں جب لوگوں کی سوچ پیٹ سے اوپر کے عوامل(سوچ و فکر) پر غور کرتی ہے، یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مفتی صاحب کے نزدیک اشارہ ناڑے کی طرف نہیں تھا لیکن اگر اس بات کو اس طرح پرکھا جاوئے کہ انسان کی برایئوں کی بجائے اس کی اچھاہیوں کو سراہا جائے، اس کی ان صلاحیتوں کو شاباشی دی جائے جو اسے دوسروں سے مختلف بناتی ہیں تو شاید ہم معاشرتی تبدیلی کے سفر کو زیادہ بہتر انداز میں آگے بڑھا سکتے ہیں، کون ایسا ہوگا جو اچھا نہیں بننا چاہتا لیکن ہمارے رویے جو اس شخص کی ساری خوبیاں چھوڑ کر اپنی نظر اس کے ناڑے پر لے جاوئے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری کوششیں بنایادی طور پر اس ڈگر پر آ پہنچی ہیں کہ ہر کسی کو نیچے کیا جاوئے، کیوں کوئی آگے بڑھے ؟ کیوں کوئی ہم سے مختلف ہو ؟ تو شاید یہ ہی وجہ ہوتی ہے کہ جو لوگ بھی زرامختلف کرنے کی جدوجہد میں ہوتے ہیں وہی لوگوں کی آوازوں، الزام تراشیوں اور بہتانوں کا شکار بنتے ہیں۔ اس بات سے قطعی انکار نہیں کے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خامی ہوتی ہے ،مگر افسوس اس بات کا کہ نظر رکھنے والے ساری چیزیں چھوڑ کراپنی نظر دوسروں کے ناڑوں پر لگا بیٹھے ہیں۔

سو بقول شاعر جو میں خود ہوں ؛

ان کے کرادر کو بے داغ رہنے نہیں دیتے
یہی مشغلہ ہے ان کا، جواہلِ مقابل نہیں رہتے

 

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these