غلط کام میں الج گئے

 

 

 بچپن میں اکثر جب کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے میرا چھوٹا بھائی یا بتیجا  گیم کھیلنے یا فلم دیکھنے کی فرمائش کرتے تو میں انہیں اکثر و بیشترکسی دوسری بات پر الجھا دیتا اور اپنےموضوع سے ہٹ جاتے اور کسی جدو جہد میں مجھ سے دور ہوجاتے، یا بعض اقات اگر وہ زیادہ تنگ کرتے تو غصہ میں انکو رلا دیا جاتا اور پھر پچھتاوئے میں انہیں منانے کے لئے اتنا ٹائم ضائع ہوجاتا کہ شائد جتنے وقت کے آدھے دورانیہ میں وہ گیم کھیل چکا ہو تا یا فلم دیکھ چکا ہوتا۔ 

پچھلے کوئی ایک دو مہینے سے مجھے بھی کوئی اسی طرح کے کام میں الجھا کر چلا گیا تھا اور میرے بہت سارت دوست ابھی تک الجھے ہوئے، ہوا  اس سے یہ کہ میرے بہت سارے دوست میری باتوں سے بیزار ہوگئے کچھ لوگوں نے فون کر کے شکایت بھی دی، کچھ لوگوں نے براراست بھی باتیں سنائی،

مثا ل کے طور شروع کے مہینے میں ہم سب ”ملالہ ” کو اچھا اور برا بنانے میں اپنی اپنی بر پور کوشش میں لگے رہے اور ہم میں سے اکثر وہ جو دوست تھے یا جن کو دوست سمجھا جاتا تھا وہ بھی اس طرح کی ذبان درازی پر اتر آئے کہ جن کے متعلق اس طرح سوچا بھی نہیں گیا تھا۔ 

پھر اس کے بعد ایک اور بحث میں ہم اوریا مقبول جان اورانصار عباسی صاحب کو صیح اور غلط ثابت کرنے لگے اور اس سے بہت سے دوستوں کے درمیان تکرار کو فروغ ملا۔ 

اور آج کل ڈرون حملے میں مرنے والے حکیم اللہ محسود پر ہم پھر ایک بحث میں سب دوست شامل ہیں کہ کچھ لوگ اسے ستر ہزار پاکستانیوں کا قاتل ثابت کرنے اور کچھ لوگ امن کا سفیر ثابت کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ 

مییرے نزدیک بحث کرنا ایک برا عمل نہیں لیکن ایک ایسے معاشرے میں بحث کرنا جہاں آپ کو سمجھنے کے لئے نہیں بلکہ جواب دینے کے لئے سنا جاتا ہو، جہاں پر ہر ایک موضع پر زاتی نفرت کو سامنے لایا جاتا ہو،جہاں دلیل کے بجائے جزبات کو فوفیت دی جاتی ہو، جہاں پر صرف اس لئے بحث کی جائے کہ آپنے جیتنا ہے۔

پچھلے کچھ دنوں سے مجھے بھی یہ احساس ہو ا ہے جب میرے کچھ عزیز دوستوں نے مجھےاس بارے میں احساس دلایا کہ اس طرح کے معاشرے میں بحث کرنا ایک فضول عمل ہے،  اور اس دوران ہم کچھ مثبت کام کرتے تو شائد کچھ اچھے نتیجے حاصل ہوسکتے تھے۔ 

باقی بحث کرنے کے لئے اسمبلی میں بیٹھے ہمارے نمائندے، ٹی وی پر بیٹھے ہمارے جج صاحبان، ہوٹلوں،تھڑوں پر بیٹھے ہمارے فارغ خان کافی ہیں۔

تو آج سے ہم سب بحث نہیں کرینگے ،بلکہ اچھے اچھے کام کرینگے  تاکہ کسی مثبت تبدیلی کو سامنے لا سکیں۔

 

 

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these

No Related Post