کہانی سنہ249کی

تیزدھوپ میں بیٹھے شیر محمد دو دہایاں قبل شیرو کے نام سے جانے جاتے لیکن آج کل وہ شیر محمد کے نام میں واپس آگئے ہیں۔

دروازے پر بیل بجتی ہے اور شیرمحمد کا سب سے چھوٹا بیٹا اپنی نو سالہ بیٹی کے ہمراہ گھر میں داخل ہوتا ہے۔

یہ اس کی واحد پوتی جس سے ہر کچھ دن بعد ملاقات کر سکتا ہے،باقی پوتے پوتیاں اسکو صرف عید یا اس کے علاوہ انتہائی خوشی یا انتہائی غم کے موقع پر نظر آتے ہیں

بچی اپنے داد کے ساتھ بیٹھ جاتی ہے جو پوتی کا اپنے دادا کے لئے محبت کا ایک اظہار ہے۔

بیٹھتے ساتھ ہی اس نےانگریزی میں کچھ بولنا شروع کیا، تو اس کے والد نے یہ کہہ کر چپ کرادیا کہ بیٹا تمہیں بتایا ہے کہ داد سے انگریزی میں بات مت کیا کرو۔

سوری، ابو میں بھول گئ بچی نے معصومیت سے جواب دیا۔

بچی نے اپنے بیگ سے ایک کتاب نکالی اور کچھ اوراق کو تبدیل کرنے کے بعد ایک تصویر کو دیکھ کر مسکرائی اور اپنے دادا سے پوچھنے لگی۔

 

دادا، آپ نے مجھے اس لڑکی کے بارے میں بتانا ہے،جس کے بارےمیں آج ہم نے پڑھا ہے، ٹیچر کہہ رہی تھی کہ یہ  اپنی بہادری کی وجہ سے وقت میں دنیا کی مشہور ترین نو عمر لڑکی تھی، اور اس وقت کے ان لوگوں کے خلاف کھڑی ہوئی جو لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف تھے اور وہ اس وقت ان کے خلاف بولی جب کوئی نہ بولا،

دادا آپ کو پتہ ہے میری خواہش ہے کہ میں بھی اس کی طرح بن سکوں۔مجھے بہت فخر ہےکہ میں اسی کے ملک میں پیدا ہوئی۔

میں نے ابو سے بھی اس کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگے میں اس ٹائم بہت چھوٹا تھا مجھے اتنا نہیں پتا،بہتر ہوگا آپ اپنے دادا سے پوچھو۔

 تو مجھے بتائیں کیونکہ آپ اس وقت جوان تھے، آپ نے خود دیکھا،آپ توخوش قسمت ہیں کہ آپ نے سب کچھ ہوتے دیکھا۔

شیر محمد،ایک گہری خاموشی میں کھوچکا تھا،جب اس نے اپنا چشمہ ہٹا تے ہوئے کتاب کو اپنی آنکھوں کے قریب لے آیا۔

اس نے اس چہرے کو پہچان لیا تھا، یہ وہی چہرہ ہے جس کو اسنے نے اپنی جوانی کی عمر میں گالیاں دی تھیں، یہ وہ چہرہ ہے جس کا یہ انکاری ہوگیا تھا، جس چہر ے کی اس نے برا بلا کہا تھا،یہ وہی چہرہ ہے جس کو اس نے دھوکہ باز سمجھا تھا،یہ وہ چہرہ تھا جس کو اس نے گستاخ قرار دیا تھا۔

لیکن اب وقت گزر چکا تھا، وہ اس وقت کی بات تھی جب وہ شیرو تھا اور وہ اب شیر محمد بن چکا تھا۔…

لیکن آج اس وقت 2049میں  اس جھوٹ کی مدت ختم ہو چکی تھی،صرف سچ تھا باقی جو اس کی پوتی کے ہاتھوں میں تھا،

شیر محمد خاموش رہا کچھ نہ بولا،کیونکہ جھوٹ اب زیادہ نہیں چل سکتا تھا

وہ اٹھا اور بغیر کسی جواب کے گھر سے باہر نکل گیا۔

اس کی پوتی کتاب سے بے پنا محبت میں آنکھوں میں ایک عجیب روشنی لئے اس تصویر کو دیکھ رہی وہ اس جیسا بن نا چاہتی تھی

اور ایک مرتبہ پھر سچھ جیت گیا اور جھوٹ تاریخ کی کالی آندھیوں میں کہیں کھوکیا۔

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these

No Related Post