آزادی ،اندیکهی ذینجروں سے۔۔

ہم انسان بھی شاید اسی پرندے کی طرح ہیں جس کو طویل عرصے تک اگر ایک پنجرے میں رکھا جائے اور ایک دن اس کا دروازہ کھول بھی دیا جائے تو بھی وہ باہر نہیں جاتا، کیونکہ اس کو اس غلامی سے اتنی محبت ہو جاتی ہے کہ اسے کچھ اور سجائی نہیں دیتا،کچھ سمجھ نہیں آتااوراس کو اگر کوئی نکال کر اس پنجرے سے باہر رکھ بھی دے تو وہ پھر بھی مسلسل اسی پنجرے کے مطعلق سوچتا رہیگا، یا شاید چھوٹے چھوٹے پنجرے اپنے ارد گرد لیئے پھرتا رہے۔

 

 

ہماری لئے شاید اب پنجروں کی شکل و صورت بدل گئی ہیں،پہلے لوہے کی باریک برکم سلاخوں کے پیچھے انسانوں کو دھکھیل دیا جاتا تھا۔آج ان کی شکل شیشے کی بنیان چھوٹی، بڑھی اسکرینوں میں بدل گئی ہے اور یہ ہمارے لئے ایک طریقے کی قید بن گئی ہیں،ہم آزاد ہوکر بھی شاید آزاد نہیں، ہم ارجنٹ چیزوں کے چکر میں اہم چیزیں چھوڑتے جار ہے ہیں، شاید احساس ،خلوص کم ہوتا جارہا ہے شاید ،ہم لوگوں کے ہجوم میں بیٹھے ہوئے بھی تنہا ہوتے جارہے ہیں،چونکہ ہمارہ جسم کہیں ہوتا ہے،سوچ کہیں اور،احساس کہیں ،دور والوں کے پاس ہوتے ہیں اور پاسوالوں سے دور شاید۔۔۔۔

 

پچھلے دنوں جب ایک عزیز کی فوتگی ہوئی تو انکی میت کے پاس بیٹھ کر ان کے پائوں پکڑ کے میں کافی دیر اس لمس کو محصوص کرتا رہا کیونکہ وہ چھونے کا احساس مجھے پھر نہ مل سکے گا۔ میں سوچتا رہا کتنی دفع ایسے ہوتا رہا جب کبھی میں ان سے ملتا رہا وہ نہ جانے کتنی باتیں کرتے رہے مجھ سے لیکن میں،ان کو سن نہ پایا ،شاید میرے کانوں نے سنا ہو ،لیکن میرے احساسات نے نہیں کیونکہ وہ تو ایک چھوٹی سی سکرین میں ہی مگن رہتے تھے۔۔۔۔۔۔

 

 

پھر غور کیا کہ کہ ناجانے کتنے اور لوگ بھی مجھ سے بات کرتے ہیں،لیکن میرے کان تک وہ باتیں تو پہنچتی ہیں لیکن اس کے بعد کوئی فاصلہ طے نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔

 

 

اب سوچتا ہوں کےاتنے خوبصورت انسانوں سے،قدرت کے مناظروں سے ،پرندوں سے،پھولوں سے میں ملتا رہا وہ سب، کچھ نہ کچھ باتیں کرنا چاہتے تھے لیکن میں ان کو سن نہیں پایا،میں ان کے احساس کو محسوس نہ کر پایا،میں شاید اس شخص ،اس پرندے ،اس منظر کے ساتھ تصویر لینے کا سوچتا رہا۔۔۔۔۔، بلا شبہ تصویریں تو بے شمار آگئیں میرے پاس لیکن وہ احساس نہیں آے۔۔۔

 

آج کافی عرصے بعد کسی جگہ پر کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی،بے شمار باتیں کی،خوب ہنسیں بھی،۔ لیکن آج میں نے کوئی تصویرنہیں لی،کیونکہ میں نے آج پہلی دفع احساسات کو،جزبات کو سامنے آتے دیکھا،آج مجھے بے تکی باتیں بھی مزیدار لگیں،کیونکہ شاید کہنے والوں کی آنکھوں میں کوئی کشش تھی،۔۔۔

 

 

لیکن کشش تو پہلے بھی لوگوں میں ہوتی تھی،ہاں یقینی طور پر ہوتی ہوگی مگر پہلے میں شاید ہمیشہ کسی نوٹیفیکیش کے انتظار میں رہتا تھا،کسی نیو فرینڈ ریکویسٹ کے انتظار میں،کسی نیو لائک یا کمینٹ یا میسج کے۔۔

 

 

مگر آج مجھے کسی بھی ایسی چیز کا انتظار نہیں تھا، میںاحساسات اور جزبات کے ساتھ جھڑا ہو ا تھا۔ اتنا زیادہ کے میں اس ساری گفتگو کے دوران اپنا موبائل بھی چیک نہ کر پایا۔۔۔۔

 

کسی طویل قید میں پڑے پرندے کے لئے صرف پنجرے کے دروازے کا کھل جاننے کا نام آزادی نہیں،بلکہ آزادی اس مقام سے کہیں آگے بلکہ یوں کہیےبہت ہی آگے ہے،کیونکہ آزادی صرف ظاہری زنجیروں سے آزادی کا نام نہیں بلکہ ان دیکھی زنیجروں سے چھٹکارہ اور اس کے بعد وہ ہمت جو آ پ کو جینے کا حوصلہ دے، جو کھل کے سانس لینے ،ہنس کے آسمان کو دیکھنے ،ستاروں کو ،پھولوں کو،بچوں کو پرندوں کو سب کو مسکرا کر دیکھ نے کی ہمت دے ،آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کے باتیں کرنے اور احساسات کو محصوص کرنے،اور جزبات کوسمجھنے کی سوچ ملے تو آپ مان لی جیئگا کہ آپ آزاد ہیں۔

 

 

ورنہ آپ ان اسکرینوں کے پیچھے بیٹھے نوٹیفیکشنز کے چکروں میں مصروف ہونگے اور آپ کو احساس ہوگا کہ شاید بہت سے لوگ آپ سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن آپ ان کو سن نہیں پائے،۔۔۔۔۔

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these

No Related Post