اس کی آ نکھو ں میں خوف دیکھا

   ویگن  پٹرول پمپ کے بلکل سامنے رک گئی تھی،میں ویگن میں بیٹھا اپنی منزل کی طرف رواں  تھا۔ عین اسی وقت  میری نظر اس پر پڑی،آج سے پہلے شاید اسے دو یا تین سال قبل دیکھا تھا،جب وہ دو چوٹیوں کے ساتھ دوپٹہ گلے میں لٹکائے ہنستے،ہنستے تختی اور دو کتابیں ہاتھ میں لیئے ہوئے  اپنی ہم عمر  سہلیوں  کے ساتھ سکول جایا کرتھی،اس کی آنکھو ں میں شرارت،معصومیت  ہی نظر آتی تھی، لیکن آ ج جب اسے دیکھا تو وہ قدرے بڑی ہو چکی تھی، شاید اس کی عمر ایک ہندسے سے نکل کر دو میں تبدیل ہو چکی تھی،
آج اس کی چوٹیاں بھی نظر نہیں آرہی تھیں کیونکہ اس نے ایک موٹی سی چادر کو اپنے اوپر اوڑا ہو ا تھا اور ایک ہاتھ سے چادر کو بڑی احتیاط کے ساتھ اپنے چہرے کے ساتھ تھامے رکھا تھا۔ آج  جب میں نے دیکھا تو وہ اپنے سے قدرے چھوٹی عمر کی لڑکیوں کے ساتھ تھی، لباس اور حالات بھی یہ بتارہے تھے کہ وہ آ ج بھی اسکول کی طرف رواں ہے۔وہ کچھ جلد ی میں تھی وہ وہ یہ چارہی تھی کہ کسی طرح اس پٹرول پمپ اور دیگر دکانوں کے درمیاں سے جلدی نکل جائے چونکہ یہاں کافی رش لگا ہو ا تھا، اور اسی کوشش میں اور اپنے ساتھ چھوٹی بچیوں کو بار بار سر پر ہاتھ لگا کے سیدھے رستے کی تاکید کر رہی تھی،
جب اس نے گاڑی کے سامنے گزرتے ہوئے چادر ٹھیک کرنے کی ایک ناکام کوشش کی تو اس کی آنکھیں جو مجھے برسوں سے یاد تھیں ایک مرتبہ پھر میرے سامنے تھیں۔میں اس کی آنکھیں دیکھ کے حیرت کے گہرائی میں چلا گیا، چونکہ آج میں جو میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا وہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا،آج میں نے اس کی آنکھو ں میں خوف دیکھا تھا۔ میں ابھی اس سوچ میں گم تھا کہ یہ کیسا خوف ہے؟ اسی دوران گاڑی اپنی منزل کی طرف دوبارہ چلنے لگی، میں سارے رستے  اسی کوشش میں رہا کہ یہ کونسا غم جو ایک معصوم کو اس قدر خوف ذدہ کرسکتا ہے؟ جواب ڈھونڈنے میں ذیادہ دیر نہیں لگی،
میں سمجھ گیا کہ اسے معاشرے میں لڑکی ہونے کا خوف ہے، اسے یہ خوف ہے کہ کیا پتا اسے جائداد کے حصول کے لئے کار و کاری کر کے قتل نہ کردیا جائے،اسے خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کے راہ چلتے ہوئے اس کی چادر جو اس نے مضطوطی سے پکڑی تھی کو ئی آوارہ لڑکا کھینچ لے اور معاشرہ بجائے اس آورہ لڑکے کو برا کہے بلکہ اس کو کہے اب تو گھر بیٹھ جا،اس کی آنکھو ں میں خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اگروہ بارش میں بھیگ جائے اور کوئی چپکے سے اس کی تصویر نکال دے تو ایسا نہ ہو اس کا بھائی اسے مار دے، اسے خوف تھا کہ کہیں وڈیرہ،کوئی جاگیردار اس کے والد کو ڈرا دھمکا کر اس سے شادی کر لے،
اس کی آنکھو ں میں خوف تھا کہ کہیں کسی آورہ گروہ کے چنگل میں آکے اجتماعی ذیادتی کا شکار نہ ہو جائے، اس کی آنکھو ں میں خوف تھا ارد گرد کی ظالم نظروں کا،لوگوں کے رویوں کا،اس کو خوف تھا آج کے انسان سے، اس کو خوف تھا اپنے وجود سے۔۔۔

About the Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these

No Related Post